[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جس دن وہ انھیں اکٹھا کرے گا، گویا وہ نہیں ٹھہرے مگر دن کی ایک گھڑی، آپس میں جان پہچان کرتے رہے۔ بے شک وہ لوگ خسارے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور وہ راہ پانے والے نہ ہوئے۔ [45] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ان کو وه دن یاد دﻻئیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وه (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے۔ واقعی خسارے میں پڑے وه لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وه ہدایت پانے والے نہ تھے [45]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جس دن خدا ان کو جمع کرے گا (تو وہ دنیا کی نسبت ایسا خیال کریں گے کہ) گویا (وہاں) گھڑی بھر دن سے زیادہ رہے ہی نہیں تھے (اور) آپس میں ایک دوسرے کو شناخت بھی کریں گے۔ جن لوگوں نے خدا کے روبرو حاضر ہونے کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑ گئے اور راہ یاب نہ ہوئے [45]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 45،
جب سب اپنی قبر سے اٹھیں گے ٭٭
بیان ہو رہا ہے کہ ” وہ وقت بھی آ رہا ہے جب قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کی قبروں سے اٹھا کر میدان قیامت میں جمع کرے گا “۔ «كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا»[79-النازعات:46] ” اس وقت انہیں ایسا معلوم ہو گا کہ گویا گھڑی بھر دن ہم رہے تھے۔ صبح یا شام ہی تک ہمارا رہنا ہوا تھا “۔
«يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا»[20-طه:102-104] ” کہیں گے کہ دس روز دنیا میں گزارے ہوں گے، تو بڑے بڑے حافظے والے کہیں گے کہاں کے دس دن تم تو ایک ہی دن رہے “۔
«وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَٰلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّـهِ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ فَهَـٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَـٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»[30-الروم:55-56] ” قیامت کے دن یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ایک ساعت ہی رہے “ وغیرہ۔ ایسی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں۔
مقصود یہ ہے کہ دنیا کی زندگی آج بہت تھوڑی معلوم ہوگی۔ سوال ہوگا کہ «قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ»[23-المؤمنون:112-114] کتنے سال دنیا میں گزارے، جواب دیں گے کہ ایک دن بلکہ اسے بھی کم شمار والوں سے پوچھ لو۔ جواب ملے گا کہ واقعہ میں دار دنیادار آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اور فی الحقیقت وہاں کی زندگی بہت ہی تھوڑی تھی لیکن تم نے اس کا خیال زندگی بھر نہ کیا۔ اس وقت بھی ہر ایک دوسرے کو پہچانتا ہو گا جیسے دنیا میں تھے ویسے ہی وہاں بھی ہوں گے رشتے کنبے کو، باپ بیٹوں الگ الگ پہنچان لیں گے۔ لیکن ہر ایک نفسا نفسی میں مشغول ہوگا۔
جیسے فرمان الٰہی ہے کہ «فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ»[23-المؤمنون:101] ” صور کے پھونکتے ہی حسب و نسب فنا ہو جائیں گے، کوئی دوست اپنے کسی دوست سے کچھ سوال تک نہ کرے گا “۔ «وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ»[77-المرسلات:15] ” جو اس دن کو جھٹلاتے رہے وہ آج گھاٹے میں رہیں گے ان کے لیے ہلاکت ہو گی انہوں نے اپنا ہی برا کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا “۔ اس سے بڑھ کر خسارہ اور کیا ہوگا کہ ایک دوسرے سے دور ہے دوستوں کے درمیان تفریق ہے، حسرت و ندامت کا دن ہے۔