(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، عن صفوان بن عسال، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يامرنا إذا كنا سفرا ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة، ولكن من غائط وبول ونوم ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روى الحكم بن عتيبة , وحماد، عن إبراهيم النخعي، عن ابي عبد الله الجدلي، عن خزيمة بن ثابت، ولا يصح. قال علي بن المديني: قال يحيى بن سعيد: قال شعبة: لم يسمع إبراهيم النخعي من ابي عبد الله الجدلي حديث المسح. وقال زائدة: عن منصور كنا في حجرة إبراهيم التيمي ومعنا إبراهيم النخعي، فحدثنا إبراهيم التيمي، عن عمرو بن ميمون، عن ابي عبد الله الجدلي، عن خزيمة بن ثابت، عن النبي صلى الله عليه وسلم في المسح على الخفين. قال محمد بن إسماعيل: احسن شيء في هذا الباب حديث صفوان بن عسال المرادي. قال ابو عيسى: وهو قول اكثر العلماء من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم من الفقهاء، مثل سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: يمسح المقيم يوما وليلة، والمسافر ثلاثة ايام ولياليهن. قال ابو عيسى: وقد روي عن بعض اهل العلم، انهم لم يوقتوا في المسح على الخفين، وهو قول مالك بن انس. قال ابو عيسى: والتوقيت اصح، وقد روي هذا الحديث عن صفوان بن عسال ايضا، من غير حديث عاصم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ , وَحَمَّادٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، وَلَا يَصِحُّ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ مِنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ حَدِيثَ الْمَسْحِ. وقَالَ زَائِدَةُ: عَنْ مَنْصُورٍ كُنَّا فِي حُجْرَةِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ وَمَعَنَا إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، فَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ، مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: يَمْسَحُ الْمُقِيمُ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَالْمُسَافِرُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُمْ لَمْ يُوَقِّتُوا فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. قال أبو عيسى: وَالتَّوْقِيتُ أَصَحُّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَيْضًا، مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ عَاصِمٍ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک، پیشاب، پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال مرادی کی حدیث سب سے عمدہ ہے، ۳- اکثر صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے اکثر اہل علم مثلاً: سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرے، اور مسافر تین دن اور تین رات، بعض علماء سے مروی ہے کہ موزوں پر مسح کے لیے وقت کی تحدید نہیں کہ (جب تک دل چاہے کر سکتا ہے) یہ مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے، لیکن تحدید والا قول زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدت کی تحدید پر دلالت کرتی ہے: مسافر کے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات، یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہو گی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے، حدث لاحق ہونے کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے، نیز مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن بن عيسى القزاز، حدثنا مالك بن انس. ح وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن، ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا توضا العبد المسلم او المؤمن فغسل وجهه، خرجت من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء، او مع آخر قطر الماء او نحو هذا، وإذا غسل يديه خرجت من يديه كل خطيئة بطشتها يداه مع الماء، او مع آخر قطر الماء، حتى يخرج نقيا من الذنوب". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح وهو حديث مالك، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة , وابو صالح والد سهيل هو ابو صالح السمان، واسمه ذكوان، وابو هريرة اختلف في اسمه، فقالوا: عبد شمس، وقالوا: عبد الله بن عمرو، وهكذا قال: محمد بن إسماعيل وهو الاصح. قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان بن عفان , وثوبان , والصنابحي , وعمرو بن عبسة , وسلمان , وعبد الله بن عمرو , والصنابحي الذي روى عن ابي بكر الصديق ليس له سماع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واسمه: عبد الرحمن بن عسيلة ويكنى ابا عبد الله، رحل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبض النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الطريق، وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم احاديث، والصنابح بن الاعسر الاحمسي صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، يقال له: الصنابحي ايضا، وإنما حديثه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" إني مكاثر بكم الامم فلا تقتتلن بعدي".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ، أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوِ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ أَوْ نَحْوَ هَذَا، وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُهَيْلٍ هُوَ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ، وَاسْمُهُ ذَكْوَانُ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِهِ، فَقَالُوا: عَبْدُ شَمْسٍ، وَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَهَكَذَا قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل وَهُوَ الْأَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , وَثَوْبَانَ , وَالصُّنَابِحِيِّ , وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ , وَسَلْمَانَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَهُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، رَحَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، وَالصُّنَابِحُ بْنُ الْأَعْسَرِ الْأَحْمَسِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ: الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا، وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ فَلَا تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں ۱؎، جو اس کی آنکھوں نے کیے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۳؎، ۲- اس باب میں عثمان بن عفان، ثوبان، صنابحی، عمرو بن عبسہ، سلمان اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صنابحی جنہوں نے ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ان کا سماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلہ، اور کنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس سفر کیا، راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔ اور صنابح بن اعسرا حمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہا جاتا ہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پر فخر کروں گا تو میرے بعد تم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔“
وضاحت: ۱؎: گناہ جھڑ جاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو جسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔
۳؎: بظاہر یہ ایک مشکل عبارت ہے کیونکہ اصطلاحی طور پر حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہے، تو اس فرق کے باوجود ان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں، سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجر نے کی ہے (الف) اگر حدیث کی دو یا دو سے زائد سندیں ہوں تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اور دوسری سند کے لحاظ سے صحیح ہے، اور اگر حدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے کے یہاں صحیح ہے، یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ حسن ہے یا صحیح۔
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، وغير واحد , قالوا: حدثنا الفضل بن موسى، عن حسين بن واقد، عن علباء بن احمر، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فحضر الاضحى فاشتركنا في البقرة سبعة، وفي الجزور عشرة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وهو حديث حسين بن واقد.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْجَزُورِ عَشَرَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حسین بن واقد کی حدیث (روایت) ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الضحایا 15 (4397)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 5 (3131) (تحفة الأشراف: 6158)، مسند احمد (1/275)، ویأتي عند المؤلف في الأضاحي 8 (1501) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن هشام الدستوائي، عن قتادة، عن ابي حسان الاعرج، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قلد نعلين، واشعر الهدي في الشق الايمن بذي الحليفة، واماط عنه الدم ". قال: وفي الباب عن المسور بن مخرمة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، وابو حسان الاعرج اسمه مسلم. والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم يرون الإشعار، وهو قول الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال: سمعت يوسف بن عيسى، يقول: سمعت وكيعا، يقول حين روى هذا الحديث، قال: لا تنظروا إلى قول اهل الراي في هذا، فإن الإشعار سنة وقولهم بدعة. قال: وسمعت ابا السائب، يقول: كنا عند وكيع، فقال لرجل عنده ممن ينظر في الراي: " اشعر رسول الله صلى الله عليه وسلم " ويقول ابو حنيفة هو مثلة، قال الرجل: فإنه قد روي عن إبراهيم النخعي، انه قال: الإشعار مثلة، قال: فرايت وكيعا غضب غضبا شديدا، وقال: اقول لك: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقول: قال إبراهيم: ما احقك بان تحبس، ثم لا تخرج حتى تنزع عن قولك هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَلَّدَ نَعْلَيْنِ، وَأَشْعَرَ الْهَدْيَ فِي الشِّقِّ الْأَيْمَنِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَمَاطَ عَنْهُ الدَّمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُهُ مُسْلِمٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ الْإِشْعَارَ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْت يُوسُفَ بْنَ عِيسَى، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ حِينَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: لَا تَنْظُرُوا إِلَى قَوْلِ أَهْلِ الرَّأْيِ فِي هَذَا، فَإِنَّ الْإِشْعَارَ سُنَّةٌ وَقَوْلُهُمْ بِدْعَةٌ. قَالَ: وسَمِعْت أَبَا السَّائِبِ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ وَكِيعٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَهُ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ: " أَشْعَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَيَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ مُثْلَةٌ، قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّهُ قَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: الْإِشْعَارُ مُثْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَكِيعًا غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَقُولُ لَكَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ: قَالَ إِبْرَاهِيمُ: مَا أَحَقَّكَ بِأَنْ تُحْبَسَ، ثُمَّ لَا تَخْرُجَ حَتَّى تَنْزِعَ عَنْ قَوْلِكَ هَذَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ میں (ہدی کے جانور کو) دو جوتیوں کے ہار پہنائے اور ان کی کوہان کے دائیں طرف اشعار ۱؎ کیا اور اس سے خون صاف کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام رضی الله عنہم وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اشعار کے قائل ہیں۔ یہی ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۳- یوسف بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے وکیع کو کہتے سنا جس وقت انہوں نے یہ حدیث روایت کی کہ اس سلسلے میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو، کیونکہ اشعار سنت ہے اور ان کا قول بدعت ہے، ۴- میں نے ابوسائب کو کہتے سنا کہ ہم لوگ وکیع کے پاس تھے تو انہوں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے جو ان لوگوں میں سے تھا جو رائے میں غور و فکر کرتے ہیں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کیا ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ مثلہ ہے تو اس آدمی نے کہا: ابراہیم نخعی سے مروی ہے انہوں نے بھی کہا ہے کہ اشعار مثلہ ہے، ابوسائب کہتے ہیں: تو میں نے وکیع کو دیکھا کہ (اس کی اس بات سے) وہ سخت ناراض ہوئے اور کہا: میں تم سے کہتا ہوں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے“ اور تم کہتے ہو: ابراہیم نے کہا: تم تو اس لائق ہو کہ تمہیں قید کر دیا جائے پھر اس وقت تک قید سے تمہیں نہ نکالا جائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے باز نہ آ جاؤ ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے، یہ ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے۔
۲؎: وکیع کے اس قول سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیئے جو ائمہ کے اقوال کو حدیث رسول کے مخالف پا کر بھی انہیں اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اور حدیث رسول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس حدیث میں اندھی تقلید کا زبردست رد ہے۔