(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: " ليس التحصيب بشيء، إنما هو منزل نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: التحصيب نزول الابطح. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: التَّحْصِيبُ نُزُولُ الْأَبْطَحِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ۱؎، یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «تحصیب» کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی، ظہر و عصر اور مغرب اور عشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری، چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا، امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر، وعمر، وعثمان ينزلون الابطح ". قال: وفي الباب عن عائشة، وابي رافع، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث صحيح حسن غريب، إنما نعرفه من حديث عبد الرزاق، عن عبيد الله بن عمر، وقد استحب بعض اهل العلم نزول الابطح من غير ان يروا ذلك واجبا إلا من احب ذلك. قال الشافعي: ونزول الابطح ليس من النسك في شيء، إنما هو منزل نزله النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ الْأَبْطَحَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ نُزُولَ الْأَبْطَحِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَوْا ذَلِكَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ أَحَبَّ ذَلِكَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَنُزُولُ الْأَبْطَحِ لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی الله عنہم ابطح ۱؎ میں قیام کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں، وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں، ۲- اس باب میں عائشہ، ابورافع اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قرار دیا ہے، واجب نہیں، جو چاہے وہاں قیام کرے، ۴- شافعی کہتے ہیں: ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 81 (3069) (تحفة الأشراف: 8025) (صحیح) وأخرجہ مسلم فی الحج (59/1310) من غیر ہذا الوجہ)»
وضاحت: ۱؎: ابطح، بطحاء خیف کنانہ اور محصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اور منیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابطح میں قیام فرمایا اس لیے کہ یہاں سے (مدینے کے لیے) روانہ ہونا زیادہ آسان تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اور سفیان نے ہشام بن عروہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 59 (1311) (تحفة الأشراف: 16785)، وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور)، سنن ابن ماجہ/المناسک 81 (3067) من غیر ھذا الوجہ۔»