Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: حج کے احکام و مناسک
81. باب مَا جَاءَ فِي نُزُولِ الأَبْطَحِ
باب: وادی ابطح میں قیام کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 921
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ الْأَبْطَحَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ نُزُولَ الْأَبْطَحِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَوْا ذَلِكَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ أَحَبَّ ذَلِكَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَنُزُولُ الْأَبْطَحِ لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی الله عنہم ابطح ۱؎ میں قیام کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں، وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں،
۲- اس باب میں عائشہ، ابورافع اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قرار دیا ہے، واجب نہیں، جو چاہے وہاں قیام کرے،
۴- شافعی کہتے ہیں: ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 81 (3069) (تحفة الأشراف: 8025) (صحیح) وأخرجہ مسلم فی الحج (59/1310) من غیر ہذا الوجہ)»

وضاحت: ۱؎: ابطح، بطحاء خیف کنانہ اور محصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اور منیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3069)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 921 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 921  
اردو حاشہ:
1؎:
ابطح،
بطحاء خیف کنانہ اور محصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اور منیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 921   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3069  
´وادی محصب میں اترنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرو عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم ابطح میں اترا کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3069]
اردو حاشہ:
فائده:
مذکورہ بالا حضرات نے مستحب سمجھ کر یہاں قیام کیا تھا لازمی عمل کے طور پر نہیں۔ (فتح الباري: 3/ 746)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3069   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3167  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما وادی أَبْطَحَ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3167]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(مُحَصَّب کو حَصْبَه،
أَبْطَحَ،
بُطْحَاء)

اور خِیْف بَنِی کِنَانَہ بھی کہتے ہیں۔
حجۃ الوداع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے واپسی کے بعد وادی مَحَصَّب میں قیام فرمایا تھا اور یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے لیے واپس ہوئے تھےآپ کی اقتداء میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور خلفائے راشدین یہاں قیام کرتے تھے اس لیے آئمہ اربعہ کے نزدیک یہاں قیام کرنا مسنون ہے لیکن بعض آئمہ کا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قول کے مطابق نظریہ،
یہ ہے کہ یہاں قیام سنت نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض اپنی سہولت اور آسانی کے لیے یہاں ٹھہرے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3167