(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال البصري، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، حدثنا ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم صائم ". قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح. هكذا روى وهيب نحو رواية عبد الوارث، وروى إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن عكرمة مرسلا ولم يذكر فيه عن ابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَى وَهِيبٌ نَحْوَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْوَارِثِ، وَرَوَى إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ محرم تھے اور روزے سے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسی طرح وہیب نے بھی عبدالوارث کی طرح روایت کی ہے، ۳- اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے ایوب سے اور ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور، عکرمہ نے اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 32 (1938)، والطب 12 (5695)، سنن ابی داود/ الصیام 29 (2372)، (تحفة الأشراف: 5989) (صحیح) ”احتجم وھو صائم“ کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے، اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داود میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے، جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ”محرم“ کا لفظ نہیں ذکر کیا ہے، در اصل الگ الگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دونوں حالت میں حجامت کرائی، جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب، عن عکرمہ، عن ابن عباس ہے کہ أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم: 1835، 1938) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم واحرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے، بلکہ دو الگ الگ واقعہ ہے) وقد أخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 11 (1835)، واطلب 15 (5700)، صحیح مسلم/الحج 11 (1202)، سنن ابی داود/ الحج 36 (1835، 1836)، سنن ابن ماجہ/الحج 87 (3081)، مسند احمد (1/215، 221، 222، 236، 248، 249، 260، 283، 286، 292، 306، 315، 333، 346، 351، 372، 374)، سنن الدارمی/المناسک 20 (1820)، من غیر ہذا الطریق۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح - بلفظ: ".... واحتجم وهو صائم " -، ابن ماجة (1682)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن يزيد بن ابي زياد، عن مقسم، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " احتجم فيما بين مكة والمدينة وهو محرم صائم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد، وجابر، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا الحديث، ولم يروا بالحجامة للصائم باسا، وهو قول سفيان الثوري، ومالك بن انس، والشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " احْتَجَمَ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَرَوْا بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، آپ احرام باندھے ہوئے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6495) (منکر) (اس لفظ کے ساتھ منکر ہے، صحیح یہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حالت احرام میں سینگی لگوائی تو صوم سے نہیں تھے کما تقدم اور حالت صیام میں سینگی لگانے کا واقعہ الگ ہے)»
قال الشيخ الألباني: منكر بهذا اللفظ، ابن ماجة (1682)
قال الشيخ زبير على زئي: (777) إسناده ضعيف / د 2373، جه 1682 يزيد بن أبى زياد ضعيف (تقدم:114) وللحديث شواھد دون قوله ”بين مكة والمدينة“
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن طاوس، وعطاء، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " احتجم وهو محرم ". قال: وفي الباب عن انس، وعبد الله ابن بحينة، وجابر. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، وقد رخص قوم من اهل العلم في الحجامة للمحرم، قالوا: لا يحلق شعرا، وقال مالك: لا يحتجم المحرم إلا من ضرورة، وقال سفيان الثوري، والشافعي: لا باس ان يحتجم المحرم ولا ينزع شعرا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، وَعَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ، قَالُوا: لَا يَحْلِقُ شَعْرًا، وقَالَ مَالِكٌ: لَا يَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ، وقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَجِمَ الْمُحْرِمُ وَلَا يَنْزِعُ شَعَرًا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس ۲؎، عبداللہ بن بحینہ ۳؎ اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بال نہیں منڈائے گا، ۴- مالک کہتے ہیں کہ محرم پچھنا نہیں لگوا سکتا، الا یہ کہ ضروری ہو، ۵- سفیان ثوری اور شافعی کہتے ہیں: محرم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بال نہیں اتار سکتا۔
وضاحت: ۱؎ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے، البتہ اگر بچھنا لگوانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ دینا ضروری ہو گا، یہ فدیہ ایک بکری ذبح کرنا ہے، یا تین دن کے روزے رکھنا، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
۲؎: انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں کی پشت پر تکلیف کی وجہ سے پچھنا لگوایا۔
۳؎: عبداللہ ابن بحینہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں لحی جمل میں اپنے سرکے وسط میں پچھنا لگوایا۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، قال: سئل انس عن كسب الحجام، فقال انس: " احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وحجمه ابو طيبة، فامر له بصاعين من طعام، وكلم اهله، فوضعوا عنه من خراجه ". وقال: إن افضل ما تداويتم به الحجامة، او إن من امثل دوائكم الحجامة، قال: وفي الباب، عن علي، وابن عباس، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وقد رخص بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، في كسب الحجام، وهو قول: الشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ، فَقَالَ أَنَسٌ: " احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَجَمَهُ أَبُو طَيْبَةَ، فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَكَلَّمَ أَهْلَهُ، فَوَضَعُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ ". وَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الْحِجَامَةَ، أَوْ إِنَّ مِنْ أَمْثَلِ دَوَائِكُمُ الْحِجَامَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ.
حمید کہتے ہیں کہ انس رضی الله عنہ سے پچھنا لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انس رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور آپ کو پچھنا لگانے والے ابوطیبہ تھے، تو آپ نے انہیں دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے بات کی، تو انہوں نے ابوطیبہ کے خراج میں کمی کر دی اور آپ نے فرمایا: ”جن چیزوں سے تم دوا کرتے ہو ان میں سب سے افضل پچھنا ہے“ یا فرمایا: ”تمہاری بہتر دواؤں میں سے پچھنا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے پچھنا لگانے والے کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے۔