Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
61. باب مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
باب: روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 775
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَى وَهِيبٌ نَحْوَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْوَارِثِ، وَرَوَى إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ محرم تھے اور روزے سے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اسی طرح وہیب نے بھی عبدالوارث کی طرح روایت کی ہے،
۳- اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے ایوب سے اور ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور، عکرمہ نے اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 32 (1938)، والطب 12 (5695)، سنن ابی داود/ الصیام 29 (2372)، (تحفة الأشراف: 5989) (صحیح) ”احتجم وھو صائم“ کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے، اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داود میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے، جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ”محرم“ کا لفظ نہیں ذکر کیا ہے، در اصل الگ الگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دونوں حالت میں حجامت کرائی، جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب، عن عکرمہ، عن ابن عباس ہے کہ أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم: 1835، 1938) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم واحرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے، بلکہ دو الگ الگ واقعہ ہے) وقد أخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 11 (1835)، واطلب 15 (5700)، صحیح مسلم/الحج 11 (1202)، سنن ابی داود/ الحج 36 (1835، 1836)، سنن ابن ماجہ/الحج 87 (3081)، مسند احمد (1/215، 221، 222، 236، 248، 249، 260، 283، 286، 292، 306، 315، 333، 346، 351، 372، 374)، سنن الدارمی/المناسک 20 (1820)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح - بلفظ: ".... واحتجم وهو صائم " -، ابن ماجة (1682)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 775 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 775  
اردو حاشہ:
نوٹ:
((اِحْتَجَمَ وَھُوَ صَائِمٌ)) کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے،
اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داؤد میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے،
جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ((محرم)) کالفظ نہیں ذکر کیا ہے،
در اصل الگ الگ نبی اکرم ﷺ نے دونوں حالت میں حجامت کرائی،
جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب،
عن عکرمہ،
عن ابن عباس ہے کہ ((أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ احتجَمَ وهو مُحْرِمٌ،
 واحتجَمَ أيضًا وهو صائمٌ)
)
: 1835، 1938) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم واحرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے،
بلکہ دو الگ الگ واقعات ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 775   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5694  
´ کس وقت پچھنا لگوایا جائے`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ: 5694]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5694کا باب: «بَابُ أَيَّ سَاعَةٍ يَحْتَجِمُ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب قائم فرمایا کہ کون سے وقت پچھنا لگوانا چاہے؟ اس مسئلے کو سوالیہ رکھا اور تحت الباب ایک اثر اور ایک مرفوع حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اثر میں رات کے وقت پچھنے لگانے کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں دن کا ذکر ہے اب یہاں پر وقت کا تعین کس طرح ہو گا؟ اور ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت کیسے ہو گی؟

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ظاهر صنع الامام البخاري رحمه الله: أن الحجامة تصنع عند الاحتياج ولا تقييد بوقت دون وقت، لأنه ذكر الاحتجام ليلاً، وذكر حديث ابن عباس، وهو يقتضي كون ذالك وقع منه نهارا .»
یعنی حجامہ ضرورت کے وقت کبھی بھی لگائے جا سکتے ہیں اس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں کیوں کہ اثر میں ہے کہ رات کے وقت پچھنے لگائے اور حدیث جو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس میں دن کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ احتجام پچھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بعد سیدنا ابوموسٰی رضی اللہ عنہ کا تعلیق ذکر فرمائی کہ انہوں نے رات کے وقت پچھنے لگائے اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب کے ذریعے مطلق زمانے کا ذکر ہے، کسی مخصوص وقت کو متعارف کروانا نہیں ہے، جو احادیث اوقات لائقہ میں حجامہ کرنے پر دلالت کرتی ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہیں، گویا کہ آپ رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت پچھنے لگوا لیے جائیں (یعنی وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔)

بعض حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوداؤد وغیرہ کی احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس میں پچھنے لگانے کے دنوں کی تفصیل ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«لعل البخاري يشير إلى حديث عند ابي داؤد، فيه تفصيل الأيام للاحتجام .»

ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لم يصح فيه شيئي عند البخاري فذالك لم يتعرض لها وقد وردت فيها احاديث .»
یعنی دنوں اور وقتوں کے تعین کے بارے میں بھی روایات ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں جس کی وجہ سے آپ نے ان روایات کو پیش نہیں کیا۔

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا پہلا رجحان تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ مطلق حجامہ لگانے کو جائز قرار دیتے ہیں بغیر کسی وقت و دن کے قید کے لہٰذا ایک حدیث اور ایک اثر کو پیش کرنے کی غرض ہی یہی ہے کہ دن و رات پچھنے لگانے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

اور جہاں تک پچھنے لگانے والی دوسری روایات کا تعلق ہے جن میں دنوں کا تعین ہے تو اس کا ذکر ہم کر دیتے ہیں تاکہ مزید مسئلے کی وضاحت ہو جائے مثلاً:
«عن انس رضى الله عنه أنه عليه السلام كان يحتجم فى الأخدعين والكاهل، وكان يحتجم لسبع عشرة وتسع عشرة واحدىٰ وعشرين .»
اس حدیث سے سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو جامہ لگانا ثابت ہوتا ہے۔
«عن ابي هريرة رضى الله عنه مرفوعاً من احتج لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدى وعشرين كان شفاء من كل داء .» [ابوداؤد رقم: 3861۔ وقال النووي في المجموع اسناده حسن على شرط مسلم]

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«من احتجم يوم الأربعاء ويوم السبت فأصابه وضح فلا يلومن الا نفسه .» [رواه الحاكم: 409/4، البيهقي: 340/9 - وقال البيهقي: سليمان بن ارقم ضعيف۔ قال الذهبي رحمه الله فى التلخيص سليمان ضعيف: 409/4]
اس روایت میں بدھ اور ہفتہ کے روز حجامت کرنے کی ممانعت ہے مگر یہ سنداً ضعیف ہے۔

ایک اور روایت جسے امام عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء میں ذکر فرمایا کہ:
«عن كبشة بنت ابي بكرة عن أبيها انه كان ينهٰى أهله عن الحجابة يوم الثلاثة، ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بأن يوم الثلاثاء يوم الدم وفيه ساعة لا يرقا .» [الضعفاء للعقيلي: 150/1، والألباني فى الضعيفة: 2251] اس روایت سے منگل کے روز حجامہ لگانے کی ممانعت ہے لیکن یہ بھی ضعیف سند کے ساتھ ہے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ کی العلل المتناہیۃ میں ہے کہ:
«عليكم بالحجامة يوم الخميس فإنها تذير فى العقل .» [العلل المتناهية: 394/2]
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعرات کے روز حجامہ لگانا چاہیے مگر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔
«وقال لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم»

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس روایت کے بارے میں جسے ابن ماجہ اور طبرانی نے نقل فرمایا کہ:
«نعم العبد الحجام يذهب الدم ويخفف الصلب ويجلو عن البصر وان خير ما تحتجمون فيه يوم سبع عشرة ويوم تسع عشرة وأحد وعشرين .
قال الحافظ فيإتحاف المهرة 619/7
قال على بن مديني: سمعت يحيىٰ بن سعيد القطان يقول: قلت لعباد بن منصور، سمعت هذا الحديث ممن؟ قال حدثني ابن ابي يحيىٰ عن داؤد بن الحصين عن عكرمة، فعلٰى هذا فالحديث معلول»
[وضعفه الألباني فى الضعيفة: 2036]
جامع الاصول میں سیدنا عمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحتجم يوم سبعة عشرة وتسعة عشرة وأحد وعشرين .» [جامع الأصول: 7/ 544]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ لگایا سترہ تاریخ کو، انیس کو اور اکیس تاریخ کو۔

ایک اور روایت ابوداؤد کی ہے کہ:
«عن سلمٰى خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: ما كان أحد يشتكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وجعاً فى رأسه الا قال: احتجم ولا وجعاً فى رجليه الا قالاخضبهما [ابوداؤد، رقم: 3858 - الصحيحة للالباني: 2059]
یعنی جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سر درد کی شکایت لے کر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے: حجامہ لگواؤ؟ اور جو کوئی پاؤں کے درد کی شکایت بتاتا تو آپ فرماتے: مہندی لگاؤ سند کے اعتبار سے یہ روایت ضعیف ہے۔

ابونعیم رحمہ اللہ کی الطب میں ہے کہ:
«عن ابن عباس مرفوعاً: الحجامة فى الرأس شفاء من سبع الجنون والجذام والبرص والنعاس ووجع الاضراس والظلمة يجدها فى عينيه .» [الطب النبوي: 359/1- الطبراني فى الكبير: 21/29 - المجروحين لابن حبان: 86/2]
ان احادیث میں دن، تاریخ، دونوں بتائے گئے ہیں کہ سترہ، انیس، اکیس، تاریخ کو پچھنے لگانا چاہے، اسی طرح جمعرات، جمعہ، ہفتہ، اتوار، پیر کے دن لگانا چاہیے، بدھ اور ایک روایت میں منگل کے دن کی ممانعت آئی ہے، یہ تمام روایات امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہیں تھیں، اسی لیے ذکر نہیں فرمایا، صرف خفیف سا اشارہ فرما دیا ہے،

چنانچہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وعند الأطباء أن أنفع الحجامة ما يقع فى الساعة الثانية أو الثالثة، وأن لا يقع عقب استفراع من حمام أو جماع ولا عقب بشبع ولا جوع وإنها تعجل فى النصف الثاني من الشهر، ثم فى الربع الثالث من أرباعه أنفع من أوله واٰخره، لأن الأخلاط فى اول الشهر تهيج وفي اٰخره تسكن فأولي ما يكون الاستفراغ فى اثنانه .» [ارشاد الساري: 15/10]
یعنی دن کے دوسرے تیسرے حصے میں پچھنے لگانا اطباء کے نزدیک اچھا ہے، غسل، جماع کے بعد صحیح نہیں، اسی طرح سے زیادہ بھوک یا زیادہ شکم سیری کی حالت میں بھی ٹھیک نہیں، مہینہ کے آخری پندرہ دنوں میں لگائے جائیں، چودہ تاریخ سے لے کر تئیس (۲۳) تاریخ تک کے دن سب سے زیادہ مناسبت ہیں، کیوں کے جسم کے اخلاط میں مہینے کی ابتداء میں ہیجان ہوتا ہے، جب کہ مہینے کے آخر میں یہ ساکن ہوتے ہیں، اس لیے درمیان کا عرصہ بہتر ہے، کیوں کہ وہ اخلاط کے اعتزال کا زمانہ ہوتا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 155   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2848  
´محرم کے پچھنا لگوانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2848]
اردو حاشہ:
محرم کے لیے بال مونڈنا منع ہے لیکن اگر جسم کے کسی حصے میں سینگی لگوائی جائے اور کچھ بال زائل کرنا پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر سر میں لگوائی جائے تو یقینا کچھ بال مونڈنے ہی پڑتے ہیں۔ اس کی شرعاً اجازت ہے۔ سینگی احرام کے خلاف نہیں۔ رسول اللہﷺ نے بھی حالت احرام میں سر کے وسط میں سینگی لگوائی تھی لیکن بال مونڈنے کے بدلے میں آپﷺ سے کہیں فدیے کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر آپ نے فدیہ دیا ہوتا تو اس کا ضرور ذکر ملتا جیسا کہ آپ کے سینگی لگوانے کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے برعکس اگر سارا سر ہی منڈوا دیا جائے تو اس کا حکم سینگی سے مختلف ہے چونکہ منڈوانے کی وجہ اور نوعیت مختلف ہے، اس لیے دونوں کا حکم بھی مختلف ہوگا۔ اس کا فدیہ دینا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1814، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1201)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2848   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2373  
´روزے کی حالت میں سینگی (پچھنا) لگوانے کی اجازت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی (پچھنا) لگوایا، آپ روزے سے تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2373]
فوائد ومسائل:
الفاظ حدیث محل نظر ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (إرواء الغلیل، حدیث نمبر:932)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2373   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3423  
´سینگی (پچھنا) لگانے والے کی اجرت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی، اور سینگی لگانے والے کو اس کی مزدوری دی، اگر آپ اسے حرام جانتے تو اسے مزدوری نہ دیتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3423]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے مذکورہ بالا حدیث نمبر 3421 وارد لفظ خبیث کا ترجمہ واضح ہوگیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3423   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3867  
´ناک میں دوا ڈالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک میں دوا ڈالی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3867]
فوائد ومسائل:
صحیح قول کے مطابق روزے کی حالت میں آنکھوں اور کانوں میں دوائی کے قطرے ڈالنےسے روزہ فاسد نہیں ہوتا، کیونکہ اس کو عرفِ عام میں کھانا پینا نہیں کہتے اور نہ اس حالت میں دوائی کھانے پینے کے راستے ہی میں داخل کی جاتی ہے، البتہ اگر دن کی بجائے رات کو دوائی استعمال کرلی جائے تو اس میں زیادہ احتیاط ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3867   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1682  
´روزہ دار کے پچھنا لگوانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا جب کہ آپ روزے سے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1682]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوائی اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی۔ (یعنی حرام اور روزے کے واقعات الگ الگ ہیں۔
ایسا نہیں کہ بیک وقت احرام بھی ہو اور روزہ بھی اور اس حالت میں سینگی لگوائی ہو۔
دیکھئے: (الإرواء الغلیل، رقم: 932)

(2)
سینگی یا پچھنے لگانا ایک طریق علاج ہے۔
جس میں ایک خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔
مریض کےجسم پر کسی تیز دھار آلے سے زخم لگا کر ایک دوسری چیز کے ذریعے سے خون چوسا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر کسی کو سینگی لگائے۔
یا کوئی روزہ دار سینگی لگوائے تو کیا ان کا روزہ ٹوٹ جائے گا یا قائم رہے گا؟ اس بارے میں علمائے کرام میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
جو لوگ روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہی حدیث ہے۔
جو حضرت ثوبان، حضرت شداد بن اوس، حضرت رافع بن خدیج اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے اس کے برعکس حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے روزہ رکھ کر سینگی لگوائی اور ان کے نزدیک سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا۔
کیا آپ لوگ (عہد نبوی میں)
روزہ دار کے لئے سینگی لگونا نا پسند کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا نہیں صرف کمزوری کی وجہ سے مکروہ سمجھا جاتا تھا (صحیح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئ للصائم، حدیث: 1940)
حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی روزے کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے۔ (موطأ إمام مالك، الصیام، باب ماجاء فی حجامة الصائم، حدیث: 276، 275)
 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا روزے دار کو سینگی لگوانا صرف اس لئے مکروہ کہ کمزوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (موطا امام مالک حوالہ مذکورہ بالا)
شیخ عبد القادر ارنا ؤوط جامع الاصول کے حاشہ میں لکھتے ہیں۔
سینگی سے روزہ ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ (جامع الاصول: 295/6، حدیث: 4417، 4416)
 امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر بحث کرکے آخر میں فرمایا:
حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے۔
کہ سینگی لگوانا اس شخص کے لئے مکروہ ہے جسے کمزوری لاحق ہوتی ہو اور اگر کمزوری اس حد تک پہنچتی ہو کہ اس کی وجہ سے افطار کرنا پڑے تو اس صورت میں سینگی لگوانا زیادہ مکروہ ہے۔
اور جس شخص کو کمزوری نہیں ہوتی۔
اس کے حق میں (سینگی لگوانا)
مکروہ نہیں لہٰذا (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوم)
 سینگی لگانے اور لگوانے والے نے روزہ کھول دیا۔
کو مجازی معنی میں لینا پڑے گا۔
کیونکہ مذکورہ بالا دلائل اسے حقیقی معنی پر محمول کرنے سے مانع ہیں۔ (نیل الأوطار: 228/4، ابواب ما یبطل الصوم وما یکرہ وما یمستحب وباب ماجاء فی الحجامة: 228/4)
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اس قسم کے مسائل میں احتیاط کرنا مناسب ہے۔
جیسے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں۔
حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روزے کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے۔
پھر انھوں نے یہ عمل ترک کردیا۔
چنانچہ وہ رات کو سینگی لگواتے تھے۔
اورحضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ر ات کو سینگی لگوائی (صحیح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئ للصائم، قبل حدیث: 1938)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1682   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2162  
´حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور حجام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی۔ ابن ماجہ کا قول ہے کہ ابن ابی عمر اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2162]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سینگی لگانے والے یہ صحابی ابو طیبہ ؓ تھے۔ (صحيح البخاري، البيوع، باب ذكر الحجام، حديث: 2102)
ان کا نام حضرت نافع تھا۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإکمال فی أسماء الرجال لصاحب مشکاۃ المصابیح)
قبیلۂ بنو بیاضہ کے غلام تھے۔
رسول اللہﷺ نے انہیں معروف اجرت عطا کرنے کے علاوہ مزید احسان بھی فرمایا کہ ان کے مالکوں سے کہہ کر ان کا خراج کم کروایا۔ (صحیح بخاری، حوالہ مذکورہ بالا)
خراج سے مراد وہ مقررہ رقم ہے جو وہ روزانہ اپنے مالکوں کو کما کر دینے کے پابند تھے۔

(2)
  سینگی لگانا اور لگوانا جائز ہے، اس لیے اس کی اجرت حلال ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2162   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 777  
´روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، آپ احرام باندھے ہوئے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 777]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اس لفظ کے ساتھ منکر ہے،
صحیح یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حالت احرام میں سینگی لگوائی تو روزے سے نہیں تھے کماتقدم اور حالت صیام میں سینگی لگانے کا واقعہ الگ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 777   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 839  
´محرم کے پچھنا لگوانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 839]
اردو حاشہ:
1؎:
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے،
البتہ اگر بچھنا لگوانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ دینا ضروری ہو گا،
یہ فدیہ ایک بکری ذبح کرنا ہے،
یا تین دن کے روزے رکھنا،
یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔

2؎:
انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں کی پشت پر تکلیف کی وجہ سے پچھنا لگوایا۔

3؎:
عبداللہ ابن بحینہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حالت احرام میں لحی جمل میں اپنے سر کے وسط میں پچھنا لگوایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 839   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:508  
508- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پچھنے لگوائے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:508]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں سینگی لگوانا درست ہے، اس کی وضاحت [سنن ابـن مـاجـه: 2852] میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں میں درد کی وجہ سے اپنے قدم کی پشت پر پچھنے لگوائے، اس حال میں کہ آپ احرام باندھے ہوئے تھے، یاد رہے کہ اگر پچھنے لگانے میں بال اتروانے پڑیں تو ہدیہ لازم آئے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 508   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4041  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی اور سینگی لگانے والے کو اس کی اجرت دی، اور آپﷺ نے ناک میں دوائی ڈالی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4041]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
استعط کا معنی ہے سعوط کا طریقہ استعمال کیا،
یعنی پشت پر لیٹ کر،
سر نیچے کر کے ناک کے ذریعہ دوائی استعمال کی،
تاکہ وہ دماغ تک پہنچے اور چھینک آئے،
جس سے بیماری نکل جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4041   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4042  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو بیاضہ کے ایک غلام نے سینگی لگائی، تو آپﷺ نے اسے اس کی اجرت دی، اور اس کے آقا سے گفتگو، تو اس نے اس سے آمدن لینے میں تخفیف کر دی، اور اگر یہ اجرت حرام ہوتی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ دیتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4042]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کے مالک سے،
اس کے خراج کے بارے میں گفتگو کی،
تو اگر سینگی لگانے کی اجرت حرام ہوتی،
تو آپﷺ اسے فرماتے،
اس کو کوئی کام سکھاؤ،
اور آپﷺ نے اس کو خبیث قرار دے کر،
اپنی سواری یا غلاموں کو کھلانے کا حکم دیا،
سواری اور غلام کو حرام کھلانا تو جائز نہیں ہے،
یا ایسے ہی خبیث ہے،
جیسا کہ آپ نے لہسن اور پیاز کے کھانے کو خبیث قرار دیا ہے،
مقصد یہ ہے سینگی لگوانے والے کو تو اجرت دینی ہی ہو گی،
لینے والے کے لیے یہ پسندیدہ نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4042   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5749  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگی لگوائی اور حجام کو اجرت دی اور ناک کے ذریعہ دوائی لی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5749]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
استعط:
چت لیٹ کر کسی چیز کے ذریعہ سر نیچا کرکے ناک میں دوائی ڈالنا تاکہ دوائی داغ میں پہنچ جائے اور چھینک کے ذریعہ گندہ مواد نکل جائے۔
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینگی ابو طیبہ نے لگائی جس کا نام نافع تھا اور آپﷺ نے اس کو اجرت میں کھجوروں کا ایک صاع دیا اور اس کے مالک محیصہ بن مسعود کو اس سے آمدن کم لینے کا حکم دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5749   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2103  
2103. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ سینگی لگوائی اور لگانےوالے کو اجرت دی۔ اگر یہ (مزدوری) حرام ہوتی تو آپ اسے نہ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2103]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت پچھنا لگوانا جائز ہے اور اس کی اجرت لینے والے اور دینے والے ہر دو کے لیے منع نہیں ہے۔
اصلاح خون کے لیے پچھنے لگوانے کا علاج بہت پرانا نسخہ ہے۔
عرب میں بھی یہی مروج تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2103   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2279  
2279. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ نبی ﷺ نے پچھنالگوایا اور حجام کو اس کی اجرت دی۔ اگر آپ حجام کی اجرت مکروہ خیال کرتے تو اسے نہ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2279]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ نے گویا اس شخص کا رد کیا، جو حجام کی اجرت کو حرام کہتا تھا۔
جمہور کا یہی مذہب ہے کہ وہ حلال ہے۔
حدت خون میں پچھنا لگانا بہت مفید ہے۔
عربوں میں یہ علاج اس مرض کے لیے عام تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2279   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5691  
5691. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے پھچھنےلگوائے اور لگانے والے حجام کو اس کی اجرت دی اور اپنے دست مبارک سے ناک میں دوائی ڈالی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5691]
حدیث حاشیہ:
مزدوری دینے کا مطلب یہ کہ پچھنا لگانے والے کا یہ پیشہ جائز درست ہے اس کو اس خدمت پر مزدوری حاصل کرنا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5691   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5701  
5701. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احترام کی حالت میں اپنے سر میں سینگی لگوائی آدھے سر کی درد کی وجہ سے آپ کو ہوگیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5701]
حدیث حاشیہ:
آدھے سر کے درد کو آدھا سیسی کہتے ہیں یہ بہت ہی تکلیف دہ درد ہوتا ہے، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمیں پچھنا لگوایا معلوم ہوا کہ اس درد کا علاج یہی ہے جو آپ نے کیا (صلی اللہ علیہ وسلم)
۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5701   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1939  
1939. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے بحالت روزہ سینگی لگوائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1939]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی فرماتے ہیں و هو ناسخ الحدیث أفطر الحاجم و المجحوم أنه جاء في بعض طرقه أن ذلك کان في حجة الوداع الخ۔
یعنی یہ حدیث جس میں پچھنا لگانے کا ذکر یہاں آیا ہے یہ دوسری حدیث جس میں ہے پچھنا لگوانے اور لگانے والے ہر دو کا روزہ ٹوٹ گیا کی ناسخ ہے۔
اس کا تعلق فتح مکہ سے ہے اور دوسری ناسخ حدیث کا تعلق حجۃ الوداع سے ہے جو فتح مکہ کے بعد ہوا، لہٰذا امر ثابت اب یہی ہے جو یہاں مذکور ہوا کہ روزہ کی حالت میں پچھنا لگانا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1939   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5694  
5694. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5694]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ بحالت روزہ پچھنا لگوانا جائز ہے اور رات و دن کی اس میں کوئی تعیین نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5694   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5695  
5695. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں سینگی لگوائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5695]
حدیث حاشیہ:
بوقت ضرورت شدید حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے اس پر انجکشن لگوانے کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ روزہ نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5695   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2103  
2103. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ سینگی لگوائی اور لگانےوالے کو اجرت دی۔ اگر یہ (مزدوری) حرام ہوتی تو آپ اسے نہ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2103]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو خید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے باپ نے ایک غلام خریدا جو سینگی لگاتا تھا۔
انھوں نے تمام آلات توڑ دیے جن کے ذریعے سے وہ سینگی لگاتا تھا۔
میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔
(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2238)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سینگی لگانے کا کاروبار درست نہیں جبکہ مذکورہ عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث کا تقاضا ہے کہ اس پیشے میں کوئی قباحت نہیں؟دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے منع فرمایا کہ اس سے عام انسان کو گھن آتی ہے،نیز اس گندے خون کو منہ میں جمع کیا جاتا ہے جس سے یہ خطرہ بدستور قائم رہتا ہے کہ شاید یہ گندا خون حلق سے اتر کر پیٹ میں چلا جائے،اس لیے کراہت کہ پیش نظر اس سے منع فرمایا،تاہم سینگی لگانے اور اس پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث کے آخر میں صراحت کی ہے کہ اگر یہ مزدوری حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ دیتے۔
(2)
واضح رہے کہ اصلاح خون کے لیے سینگی لگوانے کا علاج بہت قدیم اور مجرب ہے۔
عربوں کے ہاں اس کا عام رواج تھا۔
مفصل بحث كتاب الاحارة(حديث: 2278)
کے تحت بیان ہوگی۔
باذن الله. w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2103   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5691  
5691. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے پھچھنےلگوائے اور لگانے والے حجام کو اس کی اجرت دی اور اپنے دست مبارک سے ناک میں دوائی ڈالی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5691]
حدیث حاشیہ:
ناک میں دوائی ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ مریض کو سیدھے منہ لٹایا جائے پھر اس کے کندھوں کے نیچے کوئی چیز رکھ دی جائے تاکہ اس کا سر نیچے کی طرف جھکا رہے، پھر تیل یا پانی میں دوائی ملا کر اس کی ناک میں چند قطرے ڈالے جائیں یا صرف دوائی بطور نسوار لی جائے تا کہ دوا سے چھینکیں آئیں اور بیماری ناک کے ذریعے سے خارج ہو جائے۔
(فتح الباري: 183/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5691   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5694  
5694. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5694]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، نیز یہ بھی پتا چلا کہ سینگی لگوانے کے لیے رات یا دن کی کوئی پابندی نہیں، البتہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے قمری مہینے کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو سینگی لگوائی اسے ہر بیماری سے شفا ہو گی۔
(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3861) (2)
ان تاریخوں کا تعلق امر غیب سے ہے، ہم اس کی کوئی توجیہ نہیں کر سکتے۔
ان پر ایمان رکھتے ہوئے ان تاریخوں میں سینگی لگوانے کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5694   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5695  
5695. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں سینگی لگوائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5695]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر اور حالت احرام میں سینگی لگوائی جا سکتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حالت قیام میں احرام نہیں باندھا، ہمیشہ سفر ہی میں احرام باندھا ہے۔
(2)
بہرحال مسافر اور محرم جب دیکھے کہ میرے خون میں ہیجان پیدا ہو رہا ہے وہ سینگی لگوا کر اسے اعتدال پر لا سکتا ہے، البتہ اس کے لیے کسی ماہر فن کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہیں بصورت دیگر فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5695   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5701  
5701. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احترام کی حالت میں اپنے سر میں سینگی لگوائی آدھے سر کی درد کی وجہ سے آپ کو ہوگیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5701]
حدیث حاشیہ:
درد شقیقہ بہت تکلیف دہ بیماری ہے جو معدے کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
معدے میں گرمی کی وجہ سے بخارات اٹھتے ہیں جو دماغ تک پہنچ جاتے ہیں۔
اگر انہیں نکلنے کا راستہ نہ ملے تو پورے سر میں درد ہوتا ہے اور اگر ایک جانب کو بخارات رخ کر لیں تو اس طرف درد ہوتا ہے جسے درد شقیقہ یا آدھے سر کا درد کہا جاتا ہے۔
سینگی لگوانے سے اس درد سے آرام آ جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5701