(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن ابي حبيب، عن معمر بن ابي حيية، عن ابن المسيب، انه ساله عن الصوم في السفر، فحدث ان عمر بن الخطاب، قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان غزوتين يوم بدر، والفتح، فافطرنا فيهما ". قال: وفي الباب عن ابي سعيد. قال ابو عيسى: حديث عمر لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم " انه امر بالفطر في غزوة غزاها ". وقد روي عن عمر بن الخطاب نحو هذا، إلا انه رخص في الإفطار عند لقاء العدو، وبه يقول بعض اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِي حُيَيَّةَ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَحَدَّثَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ غَزْوَتَيْنِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَالْفَتْحِ، فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ أَمَرَ بِالْفِطْرِ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نَحْوُ هَذَا، إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْإِفْطَارِ عِنْدَ لِقَاءِ الْعَدُوِّ، وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
معمر بن ابی حیّیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسیب سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو ابن مسیب نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو غزوے کئے۔ غزوہ بدر اور فتح مکہ، ہم نے ان دونوں میں روزے نہیں رکھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے، ۳- ابو سعید خدری سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے (لوگوں کو) ایک غزوے میں افطار کا حکم دیا۔ عمر بن خطاب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ البتہ انہوں نے روزہ رکھنے کی رخصت دشمن سے مڈبھیڑ کی صورت میں دی ہے۔ اور بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10450) (ضعیف الإسناد) (سعیدبن المسیب نے عمر فاروق رضی الله عنہ کو نہیں پایا ہے، لیکن دوسرے دلائل سے مسئلہ ثابت ہے)»
وضاحت: ۱؎: یا تو سفر کی وجہ سے یا طاقت کے لیے تاکہ دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت کمزوری لاحق نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (714) إسناده ضعيف ابن لھيعة اختلط ولم يعلم تحديثه به قبل اختلاطه (تقدم:10)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح، فصام حتى بلغ كراع الغميم وصام الناس معه، فقيل له: إن الناس قد شق عليهم الصيام، وإن الناس ينظرون فيما فعلت، فدعا بقدح من ماء بعد العصر، فشرب والناس ينظرون إليه، فافطر بعضهم وصام بعضهم، فبلغه ان ناسا صاموا، فقال: " اولئك العصاة ". قال: وفي الباب عن كعب بن عاصم، وابن عباس، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " ليس من البر الصيام في السفر " واختلف اهل العلم في الصوم في السفر، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الفطر في السفر افضل، حتى راى بعضهم عليه الإعادة إذا صام في السفر. واختار احمد، وإسحاق الفطر في السفر. وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إن وجد قوة فصام فحسن، وهو افضل، وإن افطر فحسن، وهو قول سفيان الثوري، ومالك بن انس، وعبد الله بن المبارك. وقال الشافعي: وإنما معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " ليس من البر الصيام في السفر "، وقوله حين بلغه ان ناسا صاموا، فقال: " اولئك العصاة "، فوجه هذا إذا لم يحتمل قلبه قبول رخصة الله، فاما من راى الفطر مباحا وصام وقوي على ذلك فهو اعجب إلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ وَصَامَ النَّاسُ مَعَهُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَيْهِمُ الصِّيَامُ، وَإِنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ فِيمَا فَعَلْتَ، فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَشَرِبَ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَأَفْطَرَ بَعْضُهُمْ وَصَامَ بَعْضُهُمْ، فَبَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ " وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ أَفْضَلُ، حَتَّى رَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ إِذَا صَامَ فِي السَّفَرِ. وَاخْتَارَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ. وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ أَفْضَلُ، وَإِنْ أَفْطَرَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ. وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ "، وَقَوْلِهِ حِينَ بَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ "، فَوَجْهُ هَذَا إِذَا لَمْ يَحْتَمِلْ قَلْبُهُ قَبُولَ رُخْصَةِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَنْ رَأَى الْفِطْرَ مُبَاحًا وَصَامَ وَقَوِيَ عَلَى ذَلِكَ فَهُوَ أَعْجَبُ إِلَيَّ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے تو آپ نے روزہ رکھا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ۱؎ پر پہنچے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں پر روزہ رکھنا گراں ہو رہا ہے اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ (یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگا کر پیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، تو ان میں سے بعض نے روزہ توڑ دیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ (اب بھی) روزے سے ہیں، آپ نے فرمایا: ”یہی لوگ نافرمان ہیں“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں کعب بن عاصم، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے“، ۴- سفر میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے، یہاں تک بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جب وہ سفر میں روزہ رکھ لے تو وہ سفر سے لوٹنے کے بعد پھر دوبارہ رکھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی سفر میں روزہ نہ رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ ۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر وہ طاقت پائے اور روزہ رکھے تو یہی مستحسن اور افضل ہے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک اسی کے قائل ہیں، ۶- شافعی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں“ اور جس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ روزے سے ہیں تو آپ کا یہ فرمانا کہ ”یہی لوگ نافرمان ہیں“ ایسے شخص کے لیے ہے جس کا دل اللہ کی دی ہوئی رخصت اور اجازت کو قبول نہ کرے، لیکن جو لوگ سفر میں روزہ نہ رکھنے کو مباح سمجھتے ہوئے روزہ رکھے اور اس کی قوت بھی رکھتا ہو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔
وضاحت: ۱؎: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔
۲؎: کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور صوم افطار کرنے کے بارے میں انہیں جو رخصت دی گئی ہے اس رخصت کو قبول کرنے سے انہوں نے انکار کیا، اور یہ اس شخص پر محمول کیا جائے گا جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر ہو رہا ہو، رہا وہ شخص جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر نہ پہنچے تو وہ روزہ رکھنے سے گنہگار نہ ہو گا، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران مشقت کی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
(مرفوع) حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، عن عبدة بن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان حمزة بن عمرو الاسلمي، سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصوم في السفر وكان يسرد الصوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن شئت فصم وإن شئت فافطر ". قال: وفي الباب عن انس بن مالك، وابي سعيد، وعبد الله بن مسعود، وعبد الله بن عمرو، وابي الدرداء، وحمزة بن عمرو الاسلمي. قال ابو عيسى: حديث عائشة، ان حمزة بن عمرو، سال النبي صلى الله عليه وسلم، حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ وَكَانَ يَسْرُدُ الصَّوْمَ، فَقَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ شِئْتَ فَصُمْ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو، سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا، وہ خود مسلسل روزہ رکھا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث کہ حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس بن مالک، ابو سعید خدری، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمرو، ابو الدرداء اور حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصوم 58 (2310)، (تحفة الأشراف: 17071) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 33 (1942، 1943) وصحیح مسلم/الصیام 7 (1121)، و سنن ابی داود/ الصوم 42 (2402)، وسنن النسائی/الصیام 58 (2308-2310)، و74 (2386)، وسنن ابن ماجہ/الصوم 10 (1662)، موطا امام مالک/الصیام 7 (24) و مسند احمد (6/46، 193، 202، 207)، وسنن الدارمی/الصوم 15 (1748)، من غیر ہذا الطریق۔»
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں سفر کرتے تو نہ آپ روزہ رکھنے والے کے روزہ رکھنے پر نکیر کرتے اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والے کے روزہ نہ رکھنے پر۔
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا الجريري ح. قال: وحدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الاعلى، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: " كنا نسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمنا الصائم ومنا المفطر فلا يجد المفطر على الصائم، ولا الصائم على المفطر، فكانوا يرون انه من وجد قوة فصام فحسن، ومن وجد ضعفا فافطر فحسن ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ح. قَالَ: وحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: " كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ فَلَا يَجِدُ الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ، وَلَا الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، فَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ مَنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ، وَمَنْ وَجَدَ ضَعْفًا فَأَفْطَرَ فَحَسَنٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے تھے تو ہم میں سے بعض روزے سے ہوتے اور بعض روزے سے نہ ہوتے۔ تو نہ تو روزہ نہ رکھنے والا رکھنے والے پر غصہ کرتا اور نہ ہی روزہ رکھنے والے نہ رکھنے والے پر، ان کا خیال تھا کہ جسے قوت ہو وہ روزہ رکھے تو بہتر ہے، اور جس نے کمزوری محسوس کی اور روزہ نہ رکھا تو بھی بہتر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 15 (1116)، سنن النسائی/الصیام 59 (2311)، (تحفة الأشراف: 4325) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (3/45، 74، 87) من غیر ہذا الطریق۔»
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، ويوسف بن عيسى، قالا: حدثنا وكيع، حدثنا ابو هلال، عن عبد الله بن سوادة، عن انس بن مالك رجل من بني عبد الله بن كعب، قال: اغارت علينا خيل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجدته يتغدى، فقال: " ادن فكل " فقلت: إني صائم، فقال: " ادن احدثك عن الصوم او الصيام، إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة، وعن الحامل او المرضع الصوم او الصيام ". والله لقد قالهما النبي صلى الله عليه وسلم كلتيهما او إحداهما، فيا لهف نفسي ان لا اكون طعمت من طعام النبي صلى الله عليه وسلم. قال: وفي الباب عن ابي امية. قال ابو عيسى: حديث انس بن مالك الكعبي حديث حسن، ولا نعرف لانس بن مالك هذا، عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا الحديث الواحد، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقال بعض اهل العلم: الحامل والمرضع تفطران وتقضيان وتطعمان. وبه يقول سفيان، ومالك، والشافعي، واحمد، وقال بعضهم: تفطران وتطعمان ولا قضاء عليهما وإن شاءتا قضتا ولا إطعام عليهما، وبه يقول إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُهُ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: " ادْنُ فَكُلْ " فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ: " ادْنُ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ أَوِ الصِّيَامِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْحَامِلِ أَوِ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوِ الصِّيَامَ ". وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَيْهِمَا أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي أَنْ لَا أَكُونَ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْكَعْبِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ هَذَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ الْوَاحِدِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ تُفْطِرَانِ وَتَقْضِيَانِ وَتُطْعِمَانِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ، وَمَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: تُفْطِرَانِ وَتُطْعِمَانِ وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ شَاءَتَا قَضَتَا وَلَا إِطْعَامَ عَلَيْهِمَا، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق.
انس بن مالک کعبی رضی الله عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں نے ہم پر رات میں حملہ کیا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے آپ کو پایا کہ آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”آؤ کھا لو“، میں نے عرض کیا: ”میں روزے سے ہوں“۔ آپ نے فرمایا: ”قریب آؤ، میں تمہیں روزے کے بارے میں بتاؤں، اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز ۲؎ معاف کر دی ہے، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی روزہ کو معاف کر دیا ہے۔ اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت دونوں لفظ کہے یا ان میں سے کوئی ایک لفظ کہا، تو ہائے افسوس اپنے آپ پر کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیوں نہیں کھایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس بن مالک کعبی کی حدیث حسن ہے، انس بن مالک کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث ہم نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، ۲- اس باب میں ابوامیہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزہ نہیں رکھیں گی، بعد میں قضاء کریں گی، اور فقراء و مساکین کو کھانا کھلائیں گی۔ سفیان، مالک، شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں، ۵- بعض کہتے ہیں: وہ روزہ نہیں رکھیں گی بلکہ فقراء و مساکین کو کھانا کھلائیں گی۔ اور ان پر کوئی قضاء نہیں اور اگر وہ قضاء کرنا چاہیں تو ان پر کھانا کھلانا واجب نہیں۔ اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۳؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 43 (2408)، سنن النسائی/الصیام 51 (2276)، و62 (2317)، سنن ابن ماجہ/الصیام 12 (1667)، (تحفة الأشراف: 1732)، مسند احمد (4/347)، و (5/29) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ وہ انس بن مالک نہیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں، بلکہ یہ کعبی ہیں۔
۲؎: مراد چار رکعت والی نماز میں سے ہے۔
۳؎: اور اسی کو صاحب تحفہ الأحوذی نے راجح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں لہٰذا ان پر صرف قضاء لازم ہو گی۔ واللہ اعلم۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مرالظہران ۱؎ پہنچے اور ہم کو دشمن سے مقابلہ کی خبر دی تو آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا، لہٰذا ہم سب لوگوں نے روزہ توڑ دیا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: مکہ اور عسفان کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔
۲؎: اگر مجاہدین ایسے مقام تک پہنچ چکے ہیں جس سے آگے دشمن سے ملاقات کا ڈر ہے تو ایسی صورت میں روزہ توڑ دینا بہتر ہے، اور اگر یہ امر یقینی ہے کہ دشمن آگے مقابلہ کے لیے موجود ہے تو روزہ توڑ دینا ضروری ہے۔