(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عمرو بن يحيى المازني، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ليس فيما دون خمس ذود صدقة، وليس فيما دون خمس اواق صدقة، وليس فيما دون خمسة اوسق صدقة ". وفي الباب عن ابي هريرة، وابن عمر، وجابر، وعبد الله بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں ۱؎ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ ۲؎ چاندنی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ وسق ۳؎ غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ، ابن عمر، جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ اونٹوں کا نصاب ہے اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔
۲؎: اوقیہ چالیس درہم ہوتا ہے، اس حساب سے ۵ اوقیہ دو سو درہم کے ہوئے، موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم ۵۹۵ گرام کے برابر ہے۔
۳؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے پانچ وسق کے تین سو صاع ہوئے موجودہ وزن کے حساب سے تین سو صاع کا وزن تقریباً (۷۵۰) کلوگرام یعنی ساڑھے سات کوئنٹل بنتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ابو عوانة، عن سماك بن حرب. ح وحدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن سماك، عن مصعب بن سعد، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تقبل صلاة بغير طهور ولا صدقة من غلول". قال هناد في حديثه:" إلا بطهور". قال ابو عيسى: هذا الحديث اصح شيء في هذا الباب واحسن , وفي الباب عن ابي المليح، عن ابيه , وابي هريرة , وانس , وابو المليح بن اسامة اسمه عامر، ويقال: زيد بن اسامة بن عمير الهذلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ. ح وحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ". قَالَ هَنَّادٌ فِي حَدِيثِهِ:" إِلَّا بِطُهُورٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ , وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ اسْمُهُ عَامِرٌ، وَيُقَالُ: زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز بغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیا جاتا ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے ۳؎۔ ۲- اس باب میں ابوالملیح کے والد اسامہ، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: طہارت کا لفظ عام ہے وضو اور غسل دونوں کو شامل ہے، یعنی نماز کے لیے حدث اکبر اور اصغر دونوں سے پاکی ضروری ہے، نیز یہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدثوں سے پاکی (معنوی پاکی) کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی (مکان، بدن اور کپڑا کی پاکی) بھی ضروری ہے، نیز دیگر شرائط نماز بھی، جیسے رو بقبلہ ہونا، یہ نہیں کہ صرف حدث اصغر و اکبر سے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیر صلاۃ ہو جائے گی۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یا فرض، یا نماز جنازہ۔
۳؎: ”یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور حسن ہے“ اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہتر ہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کی ہے جو صحیحین میں ہے (بخاری: الوضوء باب ۲، (۱۳۵) و مسلم: الطہارۃ ۲ (۲۷۵) اور مولف کے یہاں بھی آ رہی ہے (رقم ۷۶) نیز یہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذی کے اس قول ”اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے“ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ ان صحابہ سے بھی روایت ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون و معنی کی حدیث فی الجملہ ان صحابہ سے بھی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت البناني، عن عبد الله بن رباح الانصاري، عن ابي قتادة، قال: ذكروا للنبي صلى الله عليه وسلم نومهم عن الصلاة، فقال: " إنه ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، فإذا نسي احدكم صلاة او نام عنها، فليصلها إذا ذكرها ". وفي الباب عن ابن مسعود , وابي مريم , وعمران بن حصين , وجبير بن مطعم , وابي جحيفة , وابي سعيد , وعمرو بن امية الضمري , وذي مخبر ويقال: ذي مخمر وهو ابن اخي النجاشي. قال ابو عيسى: وحديث ابي قتادة حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في الرجل ينام عن الصلاة او ينساها، فيستيقظ او يذكر وهو في غير وقت صلاة عند طلوع الشمس او عند غروبها، فقال: بعضهم يصليها إذا استيقظ او ذكر، وإن كان عند طلوع الشمس او عند غروبها، وهو قول احمد , وإسحاق , والشافعي , ومالك، وقال بعضهم: لا يصلي حتى تطلع الشمس او تغرب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: ذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَوْمَهُمْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَأَبِي مَرْيَمَ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , وَأَبِي جُحَيْفَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ , وَذِي مِخْبَرٍ وَيُقَالُ: ذِي مِخْمَرٍ وَهُوَ ابْنُ أَخِي النَّجَاشِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ يَنْسَاهَا، فَيَسْتَيْقِظُ أَوْ يَذْكُرُ وَهُوَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلَاةٍ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِهَا، فَقَالَ: بَعْضُهُمْ يُصَلِّيهَا إِذَا اسْتَيْقَظَ أَوْ ذَكَرَ، وَإِنْ كَانَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَالشَّافِعِيِّ , وَمَالِكٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ أَوْ تَغْرُبَ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نماز سے اپنے سو جانے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”سو جانے میں قصور اور کمی نہیں۔ قصور اور کمی تو جاگنے میں ہے، (کہ جاگتا رہے اور نہ پڑھے) لہٰذا تم میں سے کوئی جب نماز بھول جائے، یا نماز سے سو جائے، تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابومریم، عمران بن حصین، جبیر بن مطعم، ابوجحیفہ، ابوسعید، عمرو بن امیہ ضمری اور ذومخمر (جنہیں ذومخبر بھی کہا جاتا ہے، اور یہ نجاشی کے بھتیجے ہیں) رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کے درمیان اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو نماز سے سو جائے یا اسے بھول جائے اور ایسے وقت میں جاگے یا اسے یاد آئے جو نماز کا وقت نہیں مثلاً سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے پڑھ لے جب جاگے یا یاد آئے گو سورج نکلنے کا یا ڈوبنے کا وقت ہو، یہی احمد، اسحاق بن راہویہ، شافعی اور مالک کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جب تک سورج نکل نہ جائے یا ڈوب نہ جائے نہ پڑھے۔ پہلا قول ہی راجح ہے، کیونکہ یہ نماز سبب والی (قضاء) ہے اور سبب والی میں وقت کی پابندی نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 55 (681)، (في سیاق طویل)، سنن ابی داود/ الصلاة 11 (437)، سنن النسائی/المواقیت 53 (616)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 10 (698)، (تحفة الأشراف: 12085)، مسند احمد (5/305) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا زياد بن ايوب البغدادي، وإبراهيم بن عبد الله الهروي، ومحمد بن كامل المروزي المعنى واحد، قالوا: حدثنا عباد بن العوام، عن سفيان بن حسين، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " كتب كتاب الصدقة، فلم يخرجه إلى عماله حتى قبض فقرنه بسيفه " فلما قبض، عمل به ابو بكر حتى قبض، وعمر حتى قبض، وكان فيه " في خمس من الإبل شاة، وفي عشر شاتان، وفي خمس عشرة ثلاث شياه، وفي عشرين اربع شياه، وفي خمس وعشرين بنت مخاض إلى خمس وثلاثين، فإذا زادت ففيها ابنة لبون إلى خمس واربعين، فإذا زادت ففيها حقة إلى ستين، فإذا زادت فجذعة إلى خمس وسبعين، فإذا زادت ففيها ابنتا لبون إلى تسعين، فإذا زادت ففيها حقتان إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل خمسين حقة وفي كل اربعين ابنة لبون، وفي الشاء في كل اربعين شاة شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت فشاتان إلى مائتين، فإذا زادت فثلاث شياه إلى ثلاث مائة شاة فإذا زادت على ثلاث مائة شاة ففي كل مائة شاة شاة، ثم ليس فيها شيء حتى تبلغ اربع مائة ولا يجمع بين متفرق ولا يفرق بين مجتمع مخافة الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بالسوية، ولا يؤخذ في الصدقة هرمة ولا ذات عيب. وقال الزهري: إذا جاء المصدق قسم الشاء اثلاثا: ثلث خيار وثلث اوساط وثلث شرار، واخذ المصدق من الوسط ولم يذكر الزهري البقر. وفي الباب عن ابي بكر الصديق، وبهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده وابي ذر، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن والعمل على هذا الحديث عند عامة الفقهاء، وقد روى يونس بن يزيد وغير واحد، عن الزهري، عن سالم بهذا الحديث ولم يرفعوه، وإنما رفعه سفيان بن حسين.(مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ، فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ " فَلَمَّا قُبِضَ، عَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ، وَعُمَرُ حَتَّى قُبِضَ، وَكَانَ فِيهِ " فِي خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ شَاةٌ، وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ، وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ، وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ، وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي الشَّاءِ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ فَثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ، ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ. وقَالَ الزُّهْرِيُّ: إِذَا جَاءَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّاءَ أَثْلَاثًا: ثُلُثٌ خِيَارٌ وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ وَثُلُثٌ شِرَارٌ، وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ وَلَمْ يَذْكُرْ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَبَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، وَقَدْ رَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَإِنَّمَا رَفَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کی دستاویز تحریر کرائی، ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کر سکے تھے کہ آپ کی وفات ہو گئی، اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا ۱؎، آپ وفات فرما گئے تو ابوبکر رضی الله عنہ اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گئے، ان کے بعد عمر رضی الله عنہ بھی اسی پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گئے، اس کتاب میں تحریر تھا: ”پانچ اونٹوں میں، ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو پینتالیس تک میں دو سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو نوے تک میں دو سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سو بیس سے زائد ہو جائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دو سال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہو گی۔ اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا: چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے، ایک سو بیس تک، اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو دو سو تک میں دو بکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب تین سو سے زیادہ ہو جائیں تو پھر ہر سو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چار سو کو پہنچ جائیں، اور (زکاۃ والے) متفرق (مال) کو جمع نہیں کیا جائے گا ۲؎ اور جو مال جمع ہو اسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا ۳؎ اور جن میں دو ساجھی دار ہوں ۴؎ تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا“۔ زہری کہتے ہیں: جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے، پہلی تہائی بہتر قسم کی ہو گی، دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہو گی، پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے۔ زہری نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن ہے، ۲- یونس بن یزید اور دیگر کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے، اور زہری نے سالم سے روایت کی ہے، اور ان لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔ صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، ۳- اور اسی پر عام فقہاء کا عمل ہے، ۴- اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 34 تعلیقا عقب الحدیث (رقم: 1450)، سنن ابی داود/ الزکاة 4 (1568)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 9 (1798)، (تحفة الأشراف: 6813)، سنن الدارمی/الزکاة 6 (1666) (صحیح) (سند میں سفیان بن حسین ثقہ راوی ہیں، لیکن ابن شہاب زہری سے روایت میں کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح ”کتابت حدیث“ کا عمل شروع ہو گیا تھا، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کے علاوہ) اپنے ارشادات وفرامین اور احکام خود بھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ (تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باب «ما جاء فی رخصۃ کتابۃ العلم» میں دیکھ لیں۔
۲؎: یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور محصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے، متفرق کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو، جب زکاۃ لینے والا آئے تو تینوں نے زکاۃ کے ڈر سے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کر دیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔
۳؎: اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں، ان میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
۴؎: مثلاً دو شریک ہیں، ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہو گی اور ۲۵ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہو گی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد المحاربي، وابو سعيد الاشج، قالا: حدثنا عبد السلام بن حرب، عن خصيف، عن ابي عبيدة، عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " في ثلاثين من البقر تبيع او تبيعة وفي كل اربعين مسنة ". وفي الباب عن معاذ بن جبل. قال ابو عيسى: هكذا رواه عبد السلام بن حرب، عن خصيف، وعبد السلام ثقة حافظ، وروى شريك هذا الحديث، عن خصيف، عن ابي عبيدة، عن امه عبد الله، وابو عبيدة بن عبد الله لم يسمع من عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فِي ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعٌ أَوْ تَبِيعَةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ ". وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، وَعَبْدُ السَّلَامِ ثِقَةٌ حَافِظٌ، وَرَوَى شَرِيكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أُمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا، یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دو سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے (دانتی یعنی دو دانت والی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبدالسلام بن حرب نے اسی طرح یہ حدیث خصیف سے روایت کی ہے، اور عبدالسلام ثقہ ہیں حافظ ہیں، ۲- شریک نے بھی یہ حدیث بطریق: «خصيف عن أبي عبيدة عن أمه عن عبد الله» روایت کی ہے، ۳- اور ابوعبیدہ بن عبداللہ کا سماع اپنے والد عبداللہ سے نہیں ہے۔ ۴- اس باب میں معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 12 (1804)، (تحفة الأشراف: 9606) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ابو عبیدة کا اپنے باپ ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نںیو ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1804)
قال الشيخ زبير على زئي: (622) إسناده ضعيف / جه 1804 خصيف ضعيف (تقدم:289) والسند منقطع وللحديث شواھد ضعيفة