انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم اغفر للأنصار ولأبناء الأنصار ولأبناء أبناء الأنصار ولنساء الأنصار»”اے اللہ! انصار کو، ان کے بیٹوں کو، ان کے بیٹوں کے بیٹوں کو اور ان کی عورتوں کو بخش دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
قال الشيخ زبير على زئي: (3909) إسناده ضعيف عطاء بن السائب اختلط (تقدم: 184) وللحديث شواهد عند البخاري (4906) و مسلم (2506) وغيرهما دون قوله ”ولنساء الانصار“
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہو جائے گا یہاں تک کہ اسے موت آ جائے گی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ انسان پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک مختلف قسم کے آفات و مصائب سے گھرا ہوا ہے، اگر وہ ان آفات سے کسی طرح بچ نکلا تو بڑھاپے جیسی آفت سے وہ نہیں بچ سکے گا، اور بالآخر موت اسے آ دبوچے گی گویا یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے سبز و سنہرا باغ ہے، اسی لیے مومن کو اللہ کے ہر فیصلہ پر صبر کرنا چاہیئے، اور اللہ نے اس کے لیے جو کچھ مقدر کر رکھا ہے اس پر راضی رہنا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (1569)
قال الشيخ زبير على زئي: (2150) إسناده ضعيف /يأتي: 2456 قتادة عنعن (تقدم:30)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا علي بن زيد بن جدعان، حدثنا النضر بن انس، عن زيد بن ارقم، انه كتب إلى انس بن مالك يعزيه فيمن اصيب من اهله وبني عمه يوم الحرة، فكتب إليه: إني ابشرك ببشرى من الله، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اللهم اغفر للانصار , ولذراري الانصار , ولذراري ذراريهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا علي بن زيد بن جدعان، حدثنا النضر بن انس، وقد رواه قتادة، عن النضر بن انس، عن زيد بن ارقم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ يُعَزِّيهِ فِيمَنْ أُصِيبَ مِنْ أَهْلِهِ وَبَنِي عَمِّهِ يَوْمَ الْحَرَّةِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ: إِنِّي أُبَشِّرُكَ بِبُشْرَى مِنَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ , وَلِذَرَارِيِّ الْأَنْصَارِ , وَلِذَرَارِيِّ ذَرَارِيهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی الله عنہ کو خط لکھا اس خط میں وہ ان کی ان لوگوں کے سلسلہ میں تعزیت کر رہے تھے جو ان کے گھر والوں میں سے اور چچا کے بیٹوں میں سے حرّہ ۱؎ کے دن کام آ گئے تھے تو انہوں نے (اس خط میں) انہیں لکھا: میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! انصار کو، ان کی اولاد کو، اور ان کی اولاد کے اولاد کو بخش دے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے قتادہ نے بھی نضر بن انس رضی الله عنہ سے اور انہوں نے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: ”حرّہ کا دن“ اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزید کی فوجوں نے مسلم بن قتیبہ مُرّی کی سرکردگی میں سنہ ۶۳ھ میں مدینہ پر حملہ کر کے اہل مدینہ کو لوٹا تھا اور مدینہ کو تخت و تاراج کیا تھا، اس میں بہت سے صحابہ و تابعین کی جانیں چلی گئی تھیں، یہ فوج کشی اہل مدینہ کے یزید کی بیعت سے انکار پر کی گئی تھی، (عفا اللہ عنہ) یہ واقعہ چونکہ مدینہ کے ایک محلہ ”حرّہ“ میں ہوا تھا اس لیے اس کا نام ”یوم الحرّۃ“ پڑ گیا۔
۲؎: یعنی: اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے کام آنے والے آپ کی اولاد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت شامل ہے، اس لیے آپ کو ان کی موت پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیئے، ایک مومن کا منتہائے آرزو آخرت میں بخشش ہی تو ہے۔