(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا ابو اسامة، عن نافع بن عمر الجمحي، عن ابن ابي مليكة، قال: قال طلحة بن عبيد الله سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن عمرو بن العاص من صالحي قريش ". قال ابو عيسى: هذا حديث إنما نعرفه من حديث نافع بن عمر الجمحي، ونافع ثقة , وليس إسناده بمتصل، وابن ابي مليكة لم يدرك طلحة.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: قَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ مِنْ صَالِحِي قُرَيْشٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ، وَنَافِعٌ ثِقَةٌ , وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ لَمْ يُدْرِكْ طَلْحَةَ.
طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عمرو بن العاص رضی الله عنہ قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف نافع بن عمر جمحی کی روایت سے جانتے ہیں اور نافع ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل نہیں ہے، اور ابن ابی ملیکہ نے طلحہ کو نہیں پایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5001) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابن ابی ملیکہ اور طلحہ کے درمیان انقطاع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3845) إسناده ضعيف / السند منقطع
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي قلابة، عن ثابت بن الضحاك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ليس على العبد نذر فيما لا يملك، ولاعن المؤمن كقاتله، ومن قذف مؤمنا بكفر فهو كقاتله، ومن قتل نفسه بشيء عذبه الله بما قتل به نفسه يوم القيامة " , وفي الباب عن ابي ذر، وابن عمر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ عَلَى الْعَبْدِ نَذْرٌ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَاعِنُ الْمُؤْمِنِ كَقَاتِلِهِ، وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَاتِلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عَذَّبَهُ اللَّهُ بِمَا قَتَلَ بِهِ نَفْسَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " , وفي الباب عن أَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جس چیز کا مالک نہ ہو اس چیز کی نذر مان لے تو اس نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ۱؎، مومن پر لعنت بھیجنے والا گناہ میں اس کے قاتل کی مانند ہے اور جو شخص کسی مومن کو کافر ٹھہرائے تو وہ ویسا ہی برا ہے جیسے اس مومن کا قاتل، اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر ڈالا، تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوذر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ میرے مریض کو شفاء دیدے تو فلاں غلام آزاد ہے، حالانکہ اس غلام کا وہ مالک نہیں ہے، معلوم ہوا کہ جو چیز بندہ کے بس میں نہیں ہے اس کی نذر ماننا صحیح نہیں اور ایسی نذر کا کچھ بھی اعتبار نہیں ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي هريرة، قال: نزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلا، فجعل الناس يمرون , فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من هذا يا ابا هريرة؟ " , فاقول: فلان، فيقول: " نعم عبد الله هذا "، ويقول: " من هذا؟ " , فاقول: فلان، فيقول: " بئس عبد الله هذا "، حتى مر خالد بن الوليد , فقال: " من هذا؟ " , فقلت: هذا خالد بن الوليد، فقال: " نعم عبد الله خالد بن الوليد سيف من سيوف الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ولا نعرف لزيد بن اسلم سماعا من ابي هريرة، وهو عندي حديث مرسل. قال: وفي الباب عن ابي بكر الصديق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَجَعَلَ النَّاسُ يَمُرُّونَ , فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ هَذَا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ " , فَأَقُولُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُ: " نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا "، وَيَقُولُ: " مَنْ هَذَا؟ " , فَأَقُولُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُ: " بِئْسَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا "، حَتَّى مَرَّ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ , فَقَالَ: " مَنْ هَذَا؟ " , فَقُلْتُ: هَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَقَالَ: " نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ سَمَاعًا مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُوَ عِنْدِي حَدِيثٌ مُرْسَلٌ. قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک منزل پر پڑاؤ کیا، جب لوگ آپ کے سامنے سے گزرتے تو آپ پوچھتے: ”ابوہریرہ! یہ کون ہے؟“ میں کہتا: فلاں ہے، تو آپ فرماتے: ”کیا ہی اچھا بندہ ہے یہ اللہ کا“، پھر آپ فرماتے: ”یہ کون ہے؟“ تو میں کہتا: فلاں ہے تو آپ فرماتے: ”کیا ہی برا بندہ ہے یہ اللہ کا ۱؎“، یہاں تک کہ خالد بن ولید گزرے تو آپ نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ خالد بن ولید ہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا ہی اچھے بندے ہیں اللہ کے خالد بن ولید، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ زید بن اسلم کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ہے کہ نہیں اور یہ میرے نزدیک مرسل روایت ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: جن لوگوں کے بارے میں آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا شاید وہ منافقین ہوں گے، ورنہ کسی صحابی کے بارے میں آپ ایسا نہیں فرما سکتے تھے
۲؎: خالد بن ولید رضی الله عنہ کے حق میں آپ کا یہ فرمان عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں سچ ثابت ہوا، اللہ نے خالد بن ولید رضی الله عنہ کے ذریعہ دین کی ایسی تائید فرمائی کہ ان کے ہاتھوں متعدد فتوحات حاصل ہوئیں، خالد بن ولید رضی الله عنہ حقیقت میں اس ملت کی ایسی تلوار تھے جسے اللہ نے کافروں کی برتری کے لیے میان سے باہر نکالی تھی۔ اور خالد بن ولید رضی الله عنہ کے وہ اکیلے جرنیل ہیں جنہوں نے زندگی بھر کبھی کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6253 / التحقيق الثاني)، الصحيحة (1237 - 1826)، أحكام الجنائز (166)