(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى، حدثنا شريك، عن ابي إسحاق، عن حبشي بن جنادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " علي مني , وانا من علي، ولا يؤدي عني إلا انا او علي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلِيٌّ مِنِّي , وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
حبشی بن جنادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (119) (تحفة الأشراف: 3290)، و مسند احمد (4/164، 95) (حسن) (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ اور ابواسحاق سبیعی مدلس وصاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 1980، وتراجع الالبانی 378)»
وضاحت: ۱؎: اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے، اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان «إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا»(سورة التوبة: 28) کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی رضی الله عنہ کو بھیجا تو آپ نے علی کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات فرمائی: «علی منی و أنا من علی و لا یؤدی عنی الا أنا أو علی» ۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن يزيد الرشك، عن مطرف بن عبد الله، عن عمران بن حصين، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيشا , واستعمل عليهم علي بن ابي طالب فمضى في السرية , فاصاب جارية , فانكروا عليه , وتعاقد اربعة من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالوا: إذا لقينا رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرناه بما صنع علي، وكان المسلمون إذا رجعوا من السفر بدءوا برسول الله صلى الله عليه وسلم، فسلموا عليه , ثم انصرفوا إلى رحالهم، فلما قدمت السرية سلموا على النبي صلى الله عليه وسلم , فقام احد الاربعة , فقال: يا رسول الله الم تر إلى علي بن ابي طالب صنع كذا وكذا، فاعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قام الثاني فقال مثل مقالته، فاعرض عنه، ثم قام الثالث فقال مثل مقالته , فاعرض عنه، ثم قام الرابع فقال مثل ما قالوا، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم والغضب يعرف في وجهه فقال: " ما تريدون من علي , ما تريدون من علي , ما تريدون من علي، إن عليا مني وانا منه , وهو ولي كل مؤمن بعدي ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث جعفر بن سليمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا , وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَمَضَى فِي السَّرِيَّةِ , فَأَصَابَ جَارِيَةً , فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ , وَتَعَاقَدَ أَرْبَعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: إِذَا لَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاهُ بِمَا صَنَعَ عَلِيٌّ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا رَجَعُوا مِنَ السَّفَرِ بَدَءُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ , ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى رِحَالِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِيَّةُ سَلَّمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَامَ أَحَدُ الْأَرْبَعَةِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَنَعَ كَذَا وَكَذَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِي فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالُوا، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْغَضَبُ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ: " مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ , مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ , مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ، إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ , وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی رضی الله عنہ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کر لیا ۱؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا: ”تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۱؎ اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 10861)، و مسند احمد (4/437-438) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی، تو لوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم تو عمل میں آئی نہیں، اس لیے یہ مال غنیمت میں خردبرد کے ضمن میں آتا ہے، یا اس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہو جائے، اور علی رضی الله عنہ نے ایسا نہیں کیا ہے، یہ بات تو علی رضی الله عنہ سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم (رحم کی صفائی) سے پہلے لونڈی سے ہمبستری کر بیٹھیں، ہوا یہ ہو گا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہو گی، تو اب مزید ماہواری کی تو ضرورت تھی نہیں۔
۲؎: اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی رضی الله عنہ سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیونکہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپ نے یہی جملہ کہا ہے، مثلاً جلیبیب کے متعلق آپ نے فرمایا: ” «ہذا منی و أنا منہ»“ اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپ نے فرمایا: ” «فہم منی و أنا منہم»“ یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں، مسند احمد میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا: «أنا منہم وہم منی» ۔ نیز اس سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ”علی مجھ سے ہیں“ کا مطلب ہے: علی آپ کی ذات ہی میں سے ہیں، اس سے مراد ہے: نسب۔