(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا حيوة، اخبرنا كعب بن علقمة، سمع عبد الرحمن بن جبير، انه سمع عبد الله بن عمرو، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي، فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا، ثم سلوا لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله وارجو ان اكون انا هو، ومن سال لي الوسيلة حلت عليه الشفاعة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، قال محمد: عبد الرحمن بن جبير هذا قرشي مصري مدني، وعبد الرحمن بن جبير بن نفير شامي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ هَذَا قُرَشِيٌّ مِصْرِيٌّ مَدَنِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ شَامِيٌّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ۱؎ پھر میرے اوپر صلاۃ (درود) بھیجو کیونکہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس سند میں مذکور عبدالرحمٰن بن جبیر قرشی، مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمٰن بن جبیر شامی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 7 (348)، سنن ابی داود/ الصلاة 36 (523)، سنن النسائی/الأذان 37 (679) (تحفة الأشراف: 8871)، و مسند احمد (2/168) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سوائے «حي على الصلاة، حي على الفلاح» کے اس جواب میں کہا جائے گا، «لا حول ولا قوة إلا بالله» مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ و فلاح کے لیے پکار رہا ہے، تو اس پکار کا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطا کردہ طاقت و توفیق کے نہیں دے سکتے، یعنی صلاۃ میں نہیں حاضر ہو سکتے جب تک کہ اللہ کی مدد اور توفیق نہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (242)، التعليق على بداية السول (20 / 52)
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك. ح قال: وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي رافع , وابي هريرة , وام حبيبة , وعبد الله بن عمرو , وعبد الله بن ربيعة , وعائشة , ومعاذ بن انس , ومعاوية. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حسن صحيح، وهكذا روى معمر وغير واحد، عن الزهري مثل حديث مالك، وروى عبد الرحمن بن إسحاق، عن الزهري هذا الحديث، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواية مالك اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح قَالَ: وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأُمِّ حَبِيبَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبِيعَةَ , وَعَائِشَةَ , وَمُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ , وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَرَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعید رضی الله عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابورافع، ابوہریرہ، ام حبیبہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن ربیعہ، عائشہ، معاذ بن انس اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- معمر اور کئی رواۃ نے زہری سے مالک کی حدیث کے مثل روایت کی ہے، عبدالرحمٰن بن اسحاق نے اس حدیث کو بطریق: «الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، مالک والی روایت سب سے صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: عمر رضی الله عنہ کی روایت میں جس کی تخریج مسلم نے کی ہے «سوى الحيعلتين فيقول لا حول ولا قوة إلا بالله»”یعنی: «حي على الصلاة اور حي على الفلاح» کے علاوہ، ان پر «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہے“ کے الفاظ وارد ہیں جس سے معلوم ہوا کہ «حي على الصلاة اور حي على الفلاح» کے کلمات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان دونوں کلموں کے جواب میں سننے والا «لاحول ولا قوۃ الا باللہ» کہے گا۔