(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن زيد بن ارقم، قال: كنت مع عمي، فسمعت عبد الله بن ابي ابن سلول، يقول لاصحابه: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا، و لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل سورة المنافقون آية 8، فذكرت ذلك لعمي، فذكر ذلك عمي للنبي صلى الله عليه وسلم، فدعاني النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عبد الله بن ابي واصحابه فحلفوا ما قالوا، فكذبني رسول الله صلى الله عليه وسلم وصدقه فاصابني شيء لم يصبني قط مثله، فجلست في البيت، فقال عمي: ما اردت إلا ان كذبك رسول الله صلى الله عليه وسلم ومقتك فانزل الله تعالى: إذا جاءك المنافقون سورة المنافقون آية 1 فبعث إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقراها ثم قال: " إن الله قد صدقك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَمِّي، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ، يَقُولُ لِأَصْحَابِهِ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا، و لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 8، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي، فَذَكَرَ ذَلِكَ عَمِّي للنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي شَيْءٌ لَمْ يُصِبْنِي قَطُّ مِثْلُهُ، فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ كَذَّبَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1 فَبَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهَا ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ تھا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو اپنے ساتھیوں سے کہتے ہوئے سنا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ وہ تتربتر ہو جائیں، اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا، میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی تو میرے چچا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر دیا، آپ نے مجھے بلا کر پوچھا تو میں نے آپ کو (بھی) بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا کر پوچھا، تو انہوں نے قسم کھا لی کہ ہم نے نہیں کہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا اور اسے سچا تسلیم کر لیا، اس کا مجھے اتنا رنج و ملال ہوا کہ اس جیسا صدمہ، اور رنج و ملال مجھے کبھی نہ ہوا تھا، میں (مارے شرم و ندامت اور صدمہ کے) اپنے گھر میں ہی بیٹھ رہا، میرے چچا نے کہا: تو نے یہی چاہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جھٹلا دیں اور تجھ پر خفا ہوں؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے «إذا جاءك المنافقون» والی سورت نازل فرمائی، تو آپ نے مجھے بلا بھیجا (جب میں آیا تو) آپ نے یہ سورۃ پڑھ کر سنائی، پھر فرمایا: ”اللہ نے تجھے سچا قرار دے دیا“۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، عن ابي سعد الازدي، حدثنا زيد بن ارقم، قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان معنا اناس من الاعراب فكنا نبتدر الماء، وكان الاعراب يسبقونا إليه، فسبق اعرابي اصحابه فسبق الاعرابي، فيملا الحوض ويجعل حوله حجارة ويجعل النطع عليه حتى يجيء اصحابه، قال: فاتى رجل من الانصار اعرابيا فارخى زمام ناقته لتشرب، فابى ان يدعه، فانتزع قباض الماء، فرفع الاعرابي خشبته فضرب بها راس الانصاري فشجه، فاتى عبد الله بن ابي راس المنافقين فاخبره، وكان من اصحابه، فغضب عبد الله بن ابي، ثم قال: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا من حوله يعني الاعراب، وكانوا يحضرون رسول الله صلى الله عليه وسلم عند الطعام، فقال عبد الله: إذا انفضوا من عند محمد فاتوا محمدا بالطعام فلياكل هو ومن عنده، ثم قال لاصحابه: لئن رجعتم إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، قال زيد: وانا ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فسمعت عبد الله بن ابي، فاخبرت عمي، فانطلق فاخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فحلف وجحد، قال: فصدقه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكذبني، قال: فجاء عمي إلي، فقال: ما اردت إلا ان مقتك رسول الله صلى الله عليه وسلم وكذبك والمسلمون، قال: فوقع علي من الهم ما لم يقع على احد، قال: فبينما انا اسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، قد خفقت براسي من الهم إذ اتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فعرك اذني وضحك في وجهي، فما كان يسرني ان لي بها الخلد في الدنيا، ثم إن ابا بكر لحقني، فقال: ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: ما قال لي شيئا إلا انه عرك اذني وضحك في وجهي، فقال: ابشر، ثم لحقني عمر فقلت له: مثل قولي لابي بكر، فلما اصبحنا قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم سورة المنافقين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ فَكُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَاءَ، وَكَانَ الْأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْهِ، فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَهُ فَسَبَقَ الْأَعْرَابِيُّ، فَيَمْلَأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَهُ حِجَارَةً وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْهِ حَتَّى يَجِيءَ أَصْحَابُهُ، قَالَ: فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا فَأَرْخَى زِمَامَ نَاقَتِهِ لِتَشْرَبَ، فَأَبَى أَنْ يَدَعَهُ، فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَاءِ، فَرَفَعَ الْأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَهُ فَضَرَبَ بِهَا رَأْسَ الْأَنْصَارِيِّ فَشَجَّهُ، فَأَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ فَأَخْبَرَهُ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَغَضِبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ يَعْنِي الْأَعْرَابَ، وَكَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ فَلْيَأْكُلْ هُوَ وَمَنْ عِنْدَهُ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ: لَئِنْ رَجَعْتُم إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، قَالَ زَيْدٌ: وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، فَأَخْبَرْتُ عَمِّي، فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفَ وَجَحَدَ، قَالَ: فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَنِي، قَالَ: فَجَاءَ عَمِّي إِلَيَّ، فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ مَقَتَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَكَ وَالْمُسْلِمُونَ، قَالَ: فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنَ الْهَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَى أَحَدٍ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنَ الْهَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، فَمَا كَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَحِقَنِي، فَقَالَ: مَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُ عَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، فَقَالَ: أَبْشِرْ، ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَهُ: مِثْلَ قَوْلِي لِأَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ بنی مصطلق میں) جہاد کے لیے نکلے، ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے (جب کہیں پانی نظر آتا) تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کر لینے کی کوشش کرتے، اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے (اس وقت ایسا ہوا) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے اردگرد پتھر رکھتا، اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا، پھر اس کے ساتھی آتے، اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا، اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کر دی تاکہ وہ پانی پی لے، مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا، انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار کر اس کا سر توڑ دیا، وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا، وہ اس کے (ہم خیال) ساتھیوں میں سے تھا، اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی، عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا، غصہ میں آ گیا، کہا: ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ (یعنی اعرابی) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھا اور موجود ہوتے تھے، عبداللہ بن ابی نے کہا: جب وہ لوگ محمد کے پاس سے چلے جائیں تو محمد کے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھ (خاص) موجود لوگ کھا لیں، پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر ہم مدینہ (بسلامت) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں (اعرابیوں) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگا دینا چاہیئے، زید کہتے ہیں: میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی، تو اپنے چچا کو بتا دی، چچا گئے، انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیدی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا، اس نے آ کر قسمیں کھائیں اور انکار کیا (کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا مان لیا اور مجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، پھر میرے چچا میرے پاس آئے، بولے (بیٹے) تو نے کیا سوچا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر غصہ ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، (یہ سن کر) مجھے اتنا غم اور صدمہ ہوا کہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنا سر جھکائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں چلا ہی جا رہا تھا کہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرا دیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگر مجھے دنیا میں جنت مل جاتی تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی، پھر مجھے ابوبکر رضی الله عنہ ملے، مجھ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا: مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا: البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلائے اور مجھے دیکھ کر ہنسے، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: خوش ہو جاؤ، پھر مجھے عمر رضی الله عنہ ملے، میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی، جو میں نے ابوبکر رضی الله عنہ سے کہی تھی، پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز فجر میں) سورۃ منافقین پڑھی۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن ابي عدي، انبانا شعبة، عن الحكم بن عتيبة، قال: سمعت محمد بن كعب القرظي منذ اربعين سنة يحدث، عن زيد بن ارقم رضي الله عنه، ان عبد الله بن ابي، قال في غزوة تبوك: لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل سورة المنافقون آية 8، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له فحلف ما قاله، فلامني قومي، وقالوا: ما اردت إلا هذه، فاتيت البيت ونمت كئيبا حزينا، فاتاني النبي صلى الله عليه وسلم او اتيته، فقال: " إن الله قد صدقك، قال: فنزلت هذه الآية: هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا سورة المنافقون آية 7 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، قَال: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 8، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَحَلَفَ مَا قَالَهُ، فَلَامَنِي قَوْمِي، وَقَالُوا: مَا أَرَدْتَ إِلَّا هَذِهِ، فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ وَنِمْتُ كَئِيبًا حَزِينًا، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا سورة المنافقون آية 7 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے یا میں آپ کے پاس پہنچا (راوی کو شک ہو گیا ہے کہ زید بن ارقم رضی الله عنہ نے یہ کہا یا وہ کہا) آپ نے فرمایا: ”اللہ نے تجھے سچا ٹھہرایا ہے یہ آیت نازل ہوئی ہے: «هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا»”وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں“(المنافقون: ۷)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3312 (تحفة الأشراف: 3683) (صحیح)»