عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اس آیت «إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» کی تفسیر میں کہتے ہیں: جب کوئی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایمان لانے کے لیے آتی تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کی قسم دلا کر کہلاتے کہ میں اپنے شوہر سے ناراضگی کے باعث کفر سے نہیں نکلی ہوں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت لے کر اسلام قبول کرنے آئی ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یوردہ في ترجمة أبي نصر عن ابن عباس) (ضعیف) (سند میں راوی قیس بن الربیع کوفی صدوق راوی ہیں، لیکن بڑھاپے میں حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی، اور ان کے بیٹے نے اُن کی کتاب میں وہ احادیث داخل کر دیں جو اُن کی روایت سے نہیں تھیں، اور انہوں ان روایات کو بیان کیا، اور ابوالنصر اسدی بصری کو ابو زرعہ نے ثقہ کہا ہے، اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ابو نصر کا سماع ابن عباس سے غیر معروف ہے (صحیح البخاری، النکاح (5105) تہذیب الکمال 34/343) اور حافظ ابن حجر ابو نصر أسدی کو مجہول کہتے ہیں (التقریب) 1؎۔»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث تحفۃ الأحوذی میں نہیں ہے، نیز سنن ترمذی کے مکتبۃ المعارف والے نسخے میں بھی نہیں ہے، جب کہ ضعیف سنن الترمذی میں یہ حدیث موجود ہے، اور شیخ البانی نے إتحاف الخیرۃ المہرۃ ۸/ ۱۷۴) کا حوالہ دیا ہے، واضح رہے کہ یہ حدیث عارضۃ الأحوذی شرح صحیح الترمذی لابن العربی المالکی کے مطبوعہ نسخے بتحقیق جمال مرعشلی میں موجود ہے، اور حاشیہ میں یہ نوٹ ہے کہ مزی نے اس حدیث کو تحفۃ الأشراف میں نہیں ذکر کیا ہے، اور یہ ترمذی کے دوسرے نسخوں میں موجود نہیں ہے ۱۲/۱۴۱)
قال الشيخ زبير على زئي: (3308) إسناده ضعيف قيس بن الربيع ضعيف على الراجع (د 3761)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: " ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمتحن إلا بالآية التي قال الله: إذا جاءك المؤمنات يبايعنك سورة الممتحنة آية 12 الآية " قال معمر، فاخبرني ابن طاوس، عن ابيه، قال: " ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امراة إلا امراة يملكها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَحِنُ إِلَّا بِالْآيَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ: إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ سورة الممتحنة آية 12 الْآيَةَ " قَالَ مَعْمَرٌ، فَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلَّا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءك المؤمنات يبايعنك»”اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں“(الممتحنۃ: ۱۰)، کہا ہے ۱؎۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے باپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے اس عورت کے سوا جس کے آپ مالک ہوتے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اور امتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر، یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں، اور جب تحقیق ہو جائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان عورت کافر مرد کے لیے حرام ہے، (مردوں کو بھلے واپس کیا جائے گا)
۲؎: اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے، اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر رکھ کر بیعت لیا وہ اکثر مرسل روایات ہیں، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹا کپڑا وغیرہ) رکھا ہو، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے «لیس فی نسخۃالالبانی، وہوضعیف لأجل أبی نصرالاسدی فہومجہول» ۔