انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے ساتھ شادی والی رات گزاری، پھر آپ نے مجھے کچھ لوگوں کو کھانے پر بلانے کے لیے بھیجا۔ جب لوگ کھا پی کر چلے گئے، تو آپ اٹھے، عائشہ رضی الله عنہا کے گھر کا رخ کیا پھر آپ کی نظر دو بیٹھے ہوئے آدمیوں پر پڑی۔ تو آپ
(فوراً) پلٹ پڑے
(انہیں اس کا احساس ہو گیا) وہ دونوں اٹھے اور وہاں سے نکل گئے۔ اسی موقع پر اللہ عزوجل نے آیت
«يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه» نازل فرمائی، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بیان کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ثابت نے انس کے واسطہ سے یہ حدیث پوری کی پوری بیان کی ہے۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جا چکے تھے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا
(لٹکا دیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: تو انہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہو گا، پھر آیت حجاب نازل ہوئی
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی بیوی
(زینب بنت جحش رضی الله عنہا) کے پاس تشریف لے گئے، اس موقع پر میری ماں ام سلیم رضی الله عنہا نے حیس
۱؎ تیار کیا، اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا، پھر
(مجھ سے) کہا:
(بیٹے) انس! اسے لے کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اللہ کے رسول! میں اسے لے کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، میں نے عرض کیا: میری امی جان آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں: یہ میری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا ہدیہ ہے۔ آپ نے فرمایا:
”اسے رکھ دو
“، پھر فرمایا:
”جاؤ فلاں فلاں، اور فلاں کچھ لوگوں کے نام لیے اور جو بھی تمہیں ملے سب کو میرے پاس بلا کر لے آؤ
“، انس کہتے ہیں: جن کے نام آپ نے لیے تھے انہیں اور جو بھی مجھے آتے جاتے ملا اسے بلا لیا، راوی جعد بن عثمان کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: کتنے لوگ رہے ہوں گے؟ انہوں نے کہا: تقریباً تین سو، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر مجھ سے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”انس
«تَور» پیالہ لے آؤ
“۔ انس کہتے ہیں: لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ
(چبوترہ) اور کمرہ سب بھر گیا، آپ نے فرمایا:
”دس دس افراد کی ٹولی بنا لو اور ہر شخص اپنے قریب سے کھائے
“، لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا، ایک ٹولی
(کھا کر) باہر جاتی اور دوسری ٹولی
(کھانے کے لیے) اندر آ جاتی اس طرح سبھی نے کھا لیا۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا:
”انس: اب
(برتن) اٹھا لو
“۔ میں نے
(پیالہ) اٹھا لیا، مگر
(صحیح صحیح) بتا نہ پاؤں گا کہ جب میں نے پیالہ لا کر رکھا تھا تب اس میں حیس زیادہ تھا یا جب اٹھایا تھا تب؟ کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہو کر آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔
(انہوں نے کچھ بھی خیال نہ کیا کہ) رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہیں، وہ لوگ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ بن گئے، آپ وہاں سے اٹھ کر اپنی دوسری بیویوں کی طرف چلے گئے اور انہیں سلام کیا
(مزاج پرسی کی) اور پھر لوٹ آئے، جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ لوٹ آئے ہیں تو انہیں احساس و گمان ہوا کہ وہ لوگ آپ کے لیے باعث اذیت بن گئے ہیں، تو وہ لوگ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھے اور سب کے سب باہر نکل گئے۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم آئے دروازہ کا پردہ گرا دیا اور خود اندر چلے گئے، میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور آپ پر یہ آیتیں اتریں پھر آپ نے باہر آ کر لوگوں کو یہ آیتیں
«يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستأنسين لحديث إن ذلكم كان يؤذي النبي» ”اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو، بلکہ جب بلایا جائے تب جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے
“ (الاحزاب: ۵۳)، آخر تک پڑھ کر سنائیں۔ میں ان آیات سے سب سے پہلا واقف ہونے والا ہوں، اور اسی وقت سے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پردہ کرنے لگیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- جعد: عثمان کے بیٹے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دینار کے بیٹے ہیں اور ان کی کنیت ابوعثمان بصریٰ ہے، اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ
(قوی) ہیں، ان سے یونس بن عبید، شعبہ اور حماد بن زید نے روایت کی ہے۔