سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
3. باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
3. باب: سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2972
Save to word مکررات اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الضحاك بن مخلد، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن ابي حبيب، عن اسلم ابي عمران التجيبي، قال: كنا بمدينة الروم فاخرجوا إلينا صفا عظيما من الروم، فخرج إليهم من المسلمين مثلهم او اكثر، وعلى اهل مصر عقبة بن عامر، وعلى الجماعة فضالة بن عبيد، فحمل رجل من المسلمين على صف الروم حتى دخل فيهم، فصاح الناس وقالوا: سبحان الله يلقي بيديه إلى التهلكة، فقام ابو ايوب الانصاري، فقال: " يا ايها الناس، إنكم تتاولون هذه الآية هذا التاويل، وإنما انزلت هذه الآية فينا معشر الانصار لما اعز الله الإسلام وكثر ناصروه، فقال: بعضنا لبعض سرا دون رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اموالنا قد ضاعت وإن الله قد اعز الإسلام وكثر ناصروه فلو اقمنا في اموالنا فاصلحنا ما ضاع منها، فانزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم يرد علينا ما قلنا: وانفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بايديكم إلى التهلكة سورة البقرة آية 195 فكانت التهلكة الإقامة على الاموال وإصلاحها وتركنا الغزو فما زال ابو ايوب شاخصا في سبيل الله حتى دفن بارض الروم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ، قَالَ: كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَكْثَرُ، وَعَلَى أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى صَفِّ الرُّومِ حَتَّى دَخَلَ فِيهِمْ، فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ، فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَتَأَوَّلُونَ هَذِهِ الْآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ، وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ، فَقَالَ: بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195 فَكَانَتِ التَّهْلُكَةُ الْإِقَامَةَ عَلَى الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِهَا وَتَرْكَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
اسلم ابوعمران تجیبی کہتے ہیں کہ ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر رضی الله عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔ (یہ سن کر) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں (یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہو گئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے (حمایتی) و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے، چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا: «وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو (البقرہ: ۱۹۵)، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجھاد 23 (2512) (تحفة الأشراف: 3452) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (13)
حدیث نمبر: 1279
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، وعلي بن خشرم، قالا: انبانا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب، والسنور ". قال ابو عيسى: هذا حديث في إسناده اضطراب، ولا يصح في ثمن السنور. وقد روي هذا الحديث، عن الاعمش، عن بعض اصحابه، عن جابر واضطربوا على الاعمش في رواية هذا الحديث، وقد كره قوم من اهل العلم ثمن الهر، ورخص فيه بعضهم، وهو قول: احمد، وإسحاق، وروى ابن فضيل، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَالسِّنَّوْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا يَصِحُّ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ جَابِرٍ وَاضْطَرَبُوا عَلَى الْأَعْمَشِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ثَمَنَ الْهِرِّ، وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَوَى ابْنُ فُضَيْلٍ، عنْ الْأَعْمَشِ، عنْ أَبِي حَازِمٍ، عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے،
۲- یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے، یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکار ہیں،
۳- اور ابن فضل نے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بطریق: «الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے،
۴- اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائز کہا ہے،
۵- اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 64 (3479) (تحفة الأشراف: 2309) و انظر أیضا ما عند صحیح مسلم/المساقاة 9 (1569)، وسنن النسائی/الذبائح 61 (4300)، وسنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2161)، و مسند احمد (3/339) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2161)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.