عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: شہر کے بیرونی علاقے میں ایک عورت سے میں ملا اور سوائے جماع کے اس کے ساتھ میں نے سب کچھ کیا، اور اب بذات خود میں یہاں موجود ہوں، تو آپ اب میرے بارے میں جو فیصلہ چاہیں صادر فرمائیں
(میں وہ سزا جھیلنے کے لیے تیار ہوں) عمر رضی الله عنہ نے اس سے کہا: اللہ نے تیری پردہ پوشی کی ہے کاش تو نے بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کی ہوتی۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اور وہ آدمی چلا گیا۔ پھر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیچھے ایک آدمی بھیج کر اسے بلایا اور اسے آیت
«وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين» ”نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے حصوں میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے
“ (ہود: ۱۱۴)، تک پڑھ کر سنائی۔ ایک صحابی نے کہا: کیا یہ
(بشارت) اس شخص کے لیے خاص ہے؟ آپ نے فرمایا:
”نہیں، بلکہ سب کے لیے ہے
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح اسی جیسی روایت کی ہے اسرائیل نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے علقمہ اور اسود سے، اور ان دونوں نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے،
۳- اور اسی سفیان ثوری نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ان لوگوں کی روایت سفیان ثوری کی روایت سے زیادہ صحیح ہے
۳؎،
۴- شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے۔