Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
12. باب وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ
باب: سورۃ ہود سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3112
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي عَالَجْتُ امْرَأَةً فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَإِنِّي أَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ أَنْ أَمَسَّهَا، وَأَنَا هَذَا فَاقْضِ فِيَّ مَا شِئْتَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ سَتَرَكَ اللَّهُ لَوْ سَتَرْتَ عَلَى نَفْسِكَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَأَتْبَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَدَعَاهُ فَتَلَا عَلَيْهِ وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: هَذَا لَهُ خَاصَّةً، قَالَ: لَا بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وَرِوَايَةُ هَؤُلَاءِ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ الثَّوْرِيِّ، وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: شہر کے بیرونی علاقے میں ایک عورت سے میں ملا اور سوائے جماع کے اس کے ساتھ میں نے سب کچھ کیا، اور اب بذات خود میں یہاں موجود ہوں، تو آپ اب میرے بارے میں جو فیصلہ چاہیں صادر فرمائیں (میں وہ سزا جھیلنے کے لیے تیار ہوں) عمر رضی الله عنہ نے اس سے کہا: اللہ نے تیری پردہ پوشی کی ہے کاش تو نے بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کی ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اور وہ آدمی چلا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیچھے ایک آدمی بھیج کر اسے بلایا اور اسے آیت «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين» نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے حصوں میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے (ہود: ۱۱۴)، تک پڑھ کر سنائی۔ ایک صحابی نے کہا: کیا یہ (بشارت) اس شخص کے لیے خاص ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ سب کے لیے ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح اسی جیسی روایت کی ہے اسرائیل نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے علقمہ اور اسود سے، اور ان دونوں نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے،
۳- اور اسی سفیان ثوری نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ان لوگوں کی روایت سفیان ثوری کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۳؎،
۴- شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مواقیت الصلاة 4 (526)، وتفسیر ھود 4 (4687)، صحیح مسلم/التوبة 7 (2763)، سنن ابی داود/ الحدود 32 (4468)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 193 (1398)، ویأتي بعد حدیث (تحفة الأشراف: 9162) (صحیح)»

وضاحت: ۲؎: یہ گناہ صغیرہ کے بارے میں ہے کیونکہ گناہ کبیرہ سے بغیر توبہ کے معافی نہیں ہے، اور اس آدمی سے گناہ صغیرہ ہی سرزد ہوا تھا۔
۳؎: یعنی اسرائیل، ابوالاحوص اور شعبہ کی روایات ثوری کی روایت سے (سنداً) زیادہ صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1398)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3112 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3112  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے حصوں میں،
بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔
یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے (هود: 114)

2؎:
یہ گناہ صغیرہ کے بارے میں ہے کیونکہ گناہ کبیرہ سے بغیر توبہ کے معافی نہیں ہے،
اور اس آدمی سے گناہ صغیرہ ہی سرزد ہوا تھا۔
3؎:
یعنی اسرائیل،
ابوالاحوص اورشعبہ کی روایات ثوری کی روایت سے (سنداً) زیادہ صحیح ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3112   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4468  
´آدمی عورت سے جماع کے علاوہ سارے کام کر لے پھر گرفتاری سے پہلے توبہ کر لے تو کیا حکم ہے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: مدینہ کے آخری کنارے کی ایک عورت سے میں لطف اندوز ہوا، لیکن جماع نہیں کیا، تو اب میں حاضر ہوں میرے اوپر جو چاہیئے حد قائم کیجئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے تیری پردہ پوشی کی تھی تو تو خود بھی پردہ پوشی کرتا تو بہتر ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، تو وہ شخص چلا گیا، پھر اس کے پیچھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا، وہ اسے بلا کر لایا تو آپ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4468]
فوائد ومسائل:
1) افضل یہی ہے کہ انسان اپنے گناہ پر پردہ ڈالے اور اللہ کے حضورکثرت سے توبہ واستغفار کرے اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کا عزم کرے۔

2) جو لوگ اللہ کے خوف سے گناہوں سے پاک ہونے کے لئےاپنے آپ کو حد کے لئے پیش کریں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

3) نمازاور دیگر نیکیاں انسان کے عام گناہوں کا ازالہ کرتی رہتی ہیں جبکہ کبائرسے توبہ لازمی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4468   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1398  
´نماز گناہوں کا کفارہ ہے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے زنا سے کم کچھ بدتہذیبی کر لی، میں نہیں جانتا کہ وہ اس معاملہ میں کہاں تک پہنچا، بہرحال معاملہ زناکاری تک نہیں پہنچا تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «أقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين» دن کے دونوں حصوں (صبح و شام) میں اور رات کے کچھ حصہ میں نماز قائم کرو، بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں، اور یہ یاد کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے (سورة هود: ۱۱۴)، پھر اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1398]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد کا کسی عورت کو اور کسی عورت کا کسی مرد کو گناہ آلود نظر سے دیکھنا چھونا اور بوس وکنار وغیرہ کرنا یہ سب گناہ کے کام ہیں۔
اور حدیث میں انھیں بھی زنا قرار دیا گیا ہے۔
تاہم یہ بد فعلی سے کم درجے کے گناہ ہیں۔
اس لئے جب کوئی شخص ایسی حرکات کا ارتکا ب کرکے دل میں نادم ہو۔
توبہ کرے۔
اور وضو کرکے نماز پڑھ لے۔
تو اس کا گناہ معاف ہو جائے گا۔
البتہ ناجائز جنسی عمل کے ارتکاب پر حد کا نفاذ ضروری ہے۔
حد لگ جانے سے وہ بھی معاف ہوجاتا ہے۔

(6)
مومن کے دل میں اللہ کا خوف ہونا چاہیے۔
اگر نفس امّارہ اور شیطان کے غلبے سے غلطی ہوجائے توفوراً اس کے ازالہ اور معافی کی فکر ہونی چاہیے۔

(3)
دن کے کناروں کی نمازیں فجر اور عصر کی ہیں۔
جن کے درمیان ظہر کی نماز آ جاتی ہے۔
اور رات کی نماز مغرب اور عشاء ہیں۔
یعنی نماز پنجگانہ کی ادایئگی گناہوں کی معافی کا باعث ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1398   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7001  
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت کا بوسہ لیا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا، اس پر یہ آیت اتری۔"دن کے دونوں کناروں اور رات کی گھڑیوں میں نماز قائم کیجیے بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں یہ یاد ررکھنے والوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔" (ھود آیت نمبر114)تو اس آدمی نے پوچھا کیا یہ میرے لیے ہے؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7001]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک عورت ایک دکاندار کے پاس،
کھجوریں خریدنے آئی،
دکاندار اچھی کھجوریں دینے کے بہانے اسے اپنے گھر لے گیا اور اس کے ساتھ بوس کنار کیا،
وہ ایک مجاہد کی بیوی تھی،
پھر اسے اپنے جرم کا احساس ہوا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا،
دونوں نے خاموشی اختیار کرنے اور اپنے نفس کی پردہ پوشی کر کے توبہ کرنے کی تلقین کی،
لیکن اس کی بے قراری اور بے چینی نے اسے چین نہ لینے دیا،
وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا،
آپ نے فرمایا،
کیا تم نے ایک مجاہد کی اس کے گھر والوں کے ساتھ اس انداز سے نیابت کی ہے؟ اسے انتہائی صدمہ ہوا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکالیا،
کافی وقت گزرنے کے بعد مذکورہ بالا آیات نازل ہوئی،
طرفی النهار (دن کے دونوں اطراف)
سے مراد صبح شام ہیں،
اس لیے صبح و شام کی نماز کی طرف اشارہ ہے اور زلف،
زلفة کی جمع ہے،
جس سے مراد رات کا وہ حصہ ہے جو دن سے متصل ہے،
یعنی رات کا ابتدائی یا آخری حصہ،
عشاء کی نماز یا تہجد کی نماز مراد ہے،
نیکیاں،
برائیوں کو دور کرتی ہیں کے تین مفہوم ہیں (1)
نیکیاں،
گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں اور ان سے گناہوں کی نحوست دور ہو جاتی ہے،
(2)
نیکیاں کرنے سے انسان کی طبیعت میں،
برائی سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے چھوڑنے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔
(3)
جہاں نیکی ہو گی،
وہاں خوشحالی پیدا ہوگی،
گناہ دور ہوں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7001   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7004  
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے مدینہ کے آخری کنارے میں ایک عورت سے تعلقات قائم کیے بغیر اس کو پکڑ کر اس سے فائدہ اٹھایا ہے تو میں آپ کے پاس حاضر ہوں۔ آپ میرے بار میں میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کہا، اللہ نے تیری پردہ پوشی کی تھی،اے کاش! تو بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7004]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عالجت امراة:
ایسی عورت نے لطف اندوز ہوا ہوں معانقہ اور بوسہ مراد ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7004   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:526  
526. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی عورت کو بوسہ دے دیا، پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کو اپنے گناہ سے مطلع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: دن کے دونوں کناروں، یعنی صبح و شام نماز پابندی سے پڑھا کرو اور رات کے کچھ حصوں میں بھی اس کا اہتمام کرو، بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ حکم خاص میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ میری امت کے لیے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:526]
حدیث حاشیہ:
نماز کی ادائیگی کفارۂ سیئات ہے۔
اس کی وضاحت مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے:
حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھا کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا:
اللہ کے رسول! مجھ سے ایسا گناہ ہو گیا ہے جس سے شرعی سزا آتی ہے، آپ اسے مجھ پرقائم فرمادیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے تفصیلات معلوم نہیں کیں۔
اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔
آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔
وہ آدمی بھی شریک جماعت ہوا۔
نماز سے فراغت کے بعد پھر اس نے کہا کہ مجھ سے ایسا گناہ ہوا ہے جس پر حد لازم ہے۔
آپ کتاب اللہ کو مجھ پر نافذ کریں۔
نبی ﷺ فرمایا:
'کیا تونے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ عرض کیا:
جی ہاں! پڑھ لی ہے۔
آپ نے فرمایا:
جا! اللہ تعالیٰ نے تیرا گناہ بخش دیا ہے۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6823)
اس روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے شارحین نے صاحب واقعہ کے متعدد نام ذکر کیے ہیں۔
علامہ عینی ؒ نے چھ نام ذکر کرنے کہ بعد لکھا ہے کہ مذکورہ واقعہ ابوالیسر ؓ کے متعلق ہے۔
(عمدة القاري: 16/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 526   

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَسِمَاكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
اس سند سے، سفیان نے اعمش سے، (اور اعمش) اور سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1398)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَسِمَاكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
اس سند سے، سفیان نے اعمش سے، (اور اعمش) اور سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1398)