وہب بن حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ کا زیادہ مستحق ہے، اگر وہ کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تو وہی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوبکرہ، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عطاء بن دينار، عن ابي يزيد الخولاني، انه سمع فضالة بن عبيد، يقول: سمعت عمر بن الخطاب، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الشهداء اربعة: رجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو فصدق الله حتى قتل، فذلك الذي يرفع الناس إليه اعينهم يوم القيامة هكذا "، ورفع راسه حتى وقعت قلنسوته، قال: فما ادري اقلنسوة عمر اراد ام قلنسوة النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ورجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو فكانما ضرب جلده بشوك طلح من الجبن اتاه سهم غرب فقتله، فهو في الدرجة الثانية، ورجل مؤمن خلط عملا صالحا وآخر سيئا لقي العدو فصدق الله حتى قتل، فذلك في الدرجة الثالثة، ورجل مؤمن اسرف على نفسه لقي العدو فصدق الله حتى قتل، فذلك في الدرجة الرابعة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث عطاء بن دينار، قال: سمعت محمدا، يقول: قد روى سعيد بن ابي ايوب هذا الحديث، عن عطاء بن دينار، وقال: عن اشياخ من خولان ولم يذكر فيه عن ابي يزيد، وقال عطاء بن دينار: ليس به باس.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَعْيُنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَكَذَا "، وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي أَقَلَنْسُوَةَ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا ضُرِبَ جِلْدُهُ بِشَوْكِ طَلْحٍ مِنَ الْجُبْنِ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ، فَهُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: قَدْ رَوَى سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، وَقَالَ: عَنْ أَشْيَاخٍ مِنْ خَوْلَانَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي يَزِيدَ، وقَالَ عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”شہید چار طرح کے ہیں: پہلا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن سے مقابلہ اور اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہی وہ شخص ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ اس طرح آنکھیں اٹھا کر دیکھیں گے اور (راوی فضالہ بن عبید نے اس کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کہا) اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ٹوپی (سر سے) گر گئی“، راوی ابویزید خولانی کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم فضالہ نے عمر رضی الله عنہ کی ٹوپی مراد لی یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی، آپ نے فرمایا: ”دوسرا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن کا مقابلہ اس طرح کرے تو ان بزدلی کی وجہ سے اس کی جلد (کھال) «طلح»(ایک بڑا خاردار درخت) کے کاٹے سے زخمی ہو گئی ہو، پیچھے سے (ایک انجان) تیر آ کر اسے لگے اور مار ڈالے، یہ دوسرے درجہ میں ہے، تیسرا وہ مومن جو نیک عمل کے ساتھ برا عمل بھی کرے، جب دشمن سے مقابلہ کرے تو اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے (یعنی بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہ تیسرے درجہ میں ہے، چوتھا وہ مومن شخص جو اپنے نفس پر ظلم کرے (یعنی کثرت گناہ کی وجہ سے، اور بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہ چوتھے درجہ میں ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عطاء بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: یہ حدیث سعید بن ابی ایوب نے عطاء بن دینار سے روایت کی ہے اور انہوں نے خولان کے مشائخ سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابویزید کا ذکر نہیں کیا، اور عطاء بن دینار نے کہا: (کہ اس حدیث میں) کچھ حرج نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يكلم احد في سبيل الله والله اعلم بمن يكلم في سبيله، إلا جاء يوم القيامة اللون لون الدم، والريح ريح المسك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُكْلَمُ أَحَدٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ، وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْكِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جو بھی زخمی ہو گا - اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ۱؎ - قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خون کے رنگ میں رنگا ہوا ہو گا اور خوشبو مشک کی ہو گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی راہ جہاد میں زخمی ہونے والا کس نیت سے جہاد میں شریک ہوا تھا، اللہ کو اس کا بخوبی علم ہے کیونکہ اللہ کے کلمہ کی بلندی کے سوا اگر وہ کسی اور نیت سے شریک جہاد ہوا ہے تو وہ اس حدیث میں مذکور ثواب سے محروم رہے گا۔