(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة الماجشون، حدثني عمي، عن عبد الرحمن الاعرج، عن عبيد الله بن ابي رافع، عن علي بن ابي طالب، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع راسه من الركوع، قال: " سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ملء السموات وملء الارض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شيء بعد " قال: وفي الباب عن ابن عمر , وابن عباس , وابن ابي اوفى , وابي جحيفة , وابي سعيد، قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وبه يقول: الشافعي، قال: يقول هذا في المكتوبة والتطوع، وقال بعض اهل الكوفة: يقول هذا في صلاة التطوع ولا يقولها في صلاة المكتوبة، قال ابو عيسى: وإنما يقال الماجشوني لانه من ولد الماجشون.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، حَدَّثَنِي عَمِّي، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَابْنِ أَبِي أَوْفَى , وَأَبِي جُحَيْفَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ، قَالَ: يَقُولُ هَذَا فِي الْمَكْتُوبَةِ وَالتَّطَوُّعِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ: يَقُولُ هَذَا فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَلَا يَقُولُهَا فِي صَلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا يُقَالُ الْمَاجِشُونِيُّ لِأَنَّهُ مِنْ وَلَدِ الْمَاجِشُونِ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شيء بعد»”اللہ نے اس شخص کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اے ہمارے رب! تعریف تیرے ہی لیے ہے آسمان بھر، زمین بھر، زمین و آسمان کی تمام چیزوں بھر، اور اس کے بعد ہر اس چیز بھر جو تو چاہے“ کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، ابن ابی اوفی، ابوحجیفہ اور ابوسعید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ فرض ہو یا نفل دونوں میں یہ کلمات کہے گا ۱؎ اور بعض اہل کوفہ کہتے ہیں: یہ صرف نفل نماز میں کہے گا۔ فرض نماز میں اسے نہیں کہے گا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 26 (771)، سنن ابی داود/ الصلاة 121 (760)، (تحفة الأشراف: 10228)، مسند احمد (1/95، 102)، ویأتی عند المؤلف في الدعوات (3421، 3422) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت کے بعض طرق میں ”فرض نماز“ کے الفاظ بھی آئے ہیں جو اس بارے میں نص صریح ہے کہ نفل یا فرض سب میں اس دعا کے یہ الفاظ پڑھے جا سکتے ہیں، ویسے صرف «ربنا ولك الحمد» پر بھی اکتفا جائز ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا معاوية بن هشام، عن عمران بن انس المكي، عن عطاء، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اذكروا محاسن موتاكم وكفوا عن مساويهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، قال: سمعت محمدا، يقول: عمران بن انس المكي منكر الحديث، وروى بعضهم عن عطاء، عن عائشة، قال: وعمران بن ابي انس مصري اقدم واثبت من عمران بن انس المكي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: عِمْرَانُ بْنُ أَنَسٍ الْمَكِّيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: وَعِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ مِصْرِيٌّ أَقْدَمُ وَأَثْبَتُ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مردوں کی اچھائیوں کو ذکر کیا کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمران بن انس مکی منکر الحدیث ہیں، ۲- بعض نے عطا سے اور عطا نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے، ۳- عمران بن ابی انس مصری عمران بن انس مکی سے پہلے کے ہیں اور ان سے زیادہ ثقہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 50 (4900) (تحفة الأشراف: 7328) (ضعیف) (سند میں عمران بن انس مکی ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1678)، الروض النضير (482) // ضعيف الجامع الصغير (739)، ضعيف أبي داود (1047 / 4900) //