(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا عبيدة بن حميد، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن، ولكن التوبة معروضة " , وفي الباب عن ابن عباس، وعائشة، وعبد الله بن ابي اوفى , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقد روي عن وقد روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا زنى العبد خرج منه الإيمان فكان فوق راسه كالظلة فإذا خرج من ذلك العمل عاد إليه الإيمان " , وقد روي عن ابي جعفر محمد بن علي انه قال في هذا: خرج من الإيمان إلى الإسلام. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقد روي من غير وجه , وقد روي من غير وجه , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " في الزنا والسرقة من اصاب من ذلك شيئا فاقيم عليه الحد فهو كفارة ذنبه ومن اصاب من ذلك شيئا فستر الله عليه فهو إلى الله إن شاء عذبه يوم القيامة وإن شاء غفر له "، روى ذلك علي بن ابي طالب، وعبادة بن الصامت، وخزيمة بن ثابت، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَكِنِ التَّوْبَةَ مَعْرُوضَةٌ " , وفي الباب عن ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَدْ رُوِيَ عَنْ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا زَنَى الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِيمَانُ فَكَانَ فَوْقَ رَأْسِهِ كَالظُّلَّةِ فَإِذَا خَرَجَ مِنْ ذَلِكَ الْعَمَلِ عَادَ إِلَيْهِ الْإِيمَانُ " , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا: خَرَجَ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَى الْإِسْلَامِ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " فِي الزِّنَا وَالسَّرِقَةِ مَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَأُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ فَهُوَ كَفَّارَةُ ذَنْبِهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ "، رَوَى ذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، وَخُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا ۱؎ اور جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، لیکن اس کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، عائشہ اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس کے اندر سے نکل کر اس کے سر کے اوپر چھتری جیسا (معلق) ہو جاتا ہے، اور جب اس فعل (شنیع) سے فارغ ہو جاتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے“۔ ابو جعفر محمد بن علی (اس معاملہ میں) کہتے ہیں: جب وہ ایسی حرکت کرتا ہے تو ایمان سے نکل کر صرف مسلم رہ جاتا ہے۔ علی ابن ابی طالب، عبادہ بن صامت اور خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا اور چوری کے سلسلے میں فرمایا: ”اگر کوئی شخص اس طرح کے کسی گناہ کا مرتکب ہو جائے اور اس پر حد جاری کر دی جائے تو یہ (حد کا اجراء) اس کے گناہ کا کفارہ ہو جائے گا۔ اور جس شخص سے اس سلسلے میں کوئی گناہ سرزد ہو گیا پھر اللہ نے اس کی پردہ پوشی کر دی تو وہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے اگر وہ چاہے تو اسے قیامت کے دن عذاب دے اور چاہے تو اسے معاف کر دے“۔
وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زنا کے وقت مومن کامل نہیں رہتا، یا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ عمل زنا کو حرام سمجھتا ہے تو اس کا ایمان جاتا رہتا ہے، پھر زنا سے فارغ ہونے کے بعد اس کا ایمان لوٹ آتا ہے۔
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی جرم کیا اور اسے اس کے جرم کی سزا دنیا میں مل گئی تو اللہ اس سے کہیں زیادہ انصاف پسند ہے کہ وہ اپنے بندے کو آخرت میں دوبارہ سزا دے اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس کی پردہ پوشی کر دی اور اس سے درگزر کر دیا تو اللہ کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کر چکا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہی اہل علم کا قول ہے۔ ہم کسی شخص کو نہیں جانتے جس نے زنا کر بیٹھنے، چوری کر ڈالنے اور شراب پی لینے والے کو کافر گردانا ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 33 (2604) (تحفة الأشراف: 10313) (ضعیف) (سند میں حجاج بن محمد المصیصی اگرچہ ثقہ راوی ہیں، لیکن آخری عمر میں موت سے پہلے بغداد آنے پر اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، اور ابواسحاق السبیعی ثقہ لیکن مدلس اور مختلط راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2604) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (567) مع اختلاف في اللفظ، ضعيف الجامع الصغير (5423)، المشكاة (3629) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2626) إسناده ضعيف/ جه 2604 أبو إسحاق عنعن (تقدم:107)