(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن الاعمش، قال: سمعت سعد بن عبيدة يحدث، عن المستورد، عن صلة بن زفر، عن حذيفة انه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم، فكان يقول في ركوعه: " سبحان ربي العظيم " وفي سجوده " سبحان ربي الاعلى " وما اتى على آية رحمة إلا وقف وسال، وما اتى على آية عذاب إلا وقف وتعوذ. قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح،(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ " وَفِي سُجُودِهِ " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى " وَمَا أَتَى عَلَى آيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ وَسَأَلَ، وَمَا أَتَى عَلَى آيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ وَتَعَوَّذَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» پڑھ رہے تھے۔ اور جب بھی رحمت کی کسی آیت پر پہنچتے تو ٹھہرتے اور سوال کرتے اور جب عذاب کی کسی آیت پر آتے تو ٹھہرتے اور (عذاب سے) پناہ مانگتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ نفل نمازوں کے ساتھ خاص ہے، شیخ عبدالحق ”لمعات التنقيح شرح مشكاة المصابيح“ میں فرماتے ہیں «االظاهر أنه كان في الصلاة محمول عندنا على النوافل» یعنی ظاہر یہی ہے کہ آپ نماز میں تھے اور یہ ہمارے نزدیک نوافل پر محمول ہو گا (اگلی حدیث میں اس کے تہجد میں ہونے کی صراحت آ گئی ہے)۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا عيسى بن يونس، عن ابن ابي ذئب، عن إسحاق بن يزيد الهذلي، عن عون بن عبد الله بن عتبة، عن ابن مسعود، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا ركع احدكم فقال في ركوعه: سبحان ربي العظيم ثلاث مرات، فقد تم ركوعه وذلك ادناه، وإذا سجد فقال في سجوده: سبحان ربي الاعلى ثلاث مرات، فقد تم سجوده وذلك ادناه" قال: وفي الباب عن حذيفة , وعقبة بن عامر، قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود ليس إسناده بمتصل، عون بن عبد الله بن عتبة لم يلق ابن مسعود، والعمل على هذا عند اهل العلم يستحبون ان لا ينقص الرجل في الركوع والسجود من ثلاث تسبيحات، وروي عن عبد الله بن المبارك، انه قال: استحب للإمام ان يسبح خمس تسبيحات لكي يدرك من خلفه ثلاث تسبيحات، وهكذا قال: إسحاق بن إبراهيم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ يَزِيدَ الْهُذَلِيِّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ رُكُوعُهُ وَذَلِكَ أَدْنَاهُ، وَإِذَا سَجَدَ فَقَالَ فِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ سُجُودُهُ وَذَلِكَ أَدْنَاهُ" قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ , وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ لَمْ يَلْقَ ابْنَ مَسْعُودٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَنْقُصَ الرَّجُلُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ مِنْ ثَلَاثِ تَسْبِيحَاتٍ، وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: أَسْتَحِبُّ لِلْإِمَامِ أَنْ يُسَبِّحَ خَمْسَ تَسْبِيحَاتٍ لِكَيْ يُدْرِكَ مَنْ خَلْفَهُ ثَلَاثَ تَسْبِيحَاتٍ، وَهَكَذَا قَالَ: إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو رکوع میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ» تین مرتبہ کہے تو اس کا رکوع پورا ہو گیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔ اور جب سجدہ کرے تو اپنے سجدے میں تین مرتبہ «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى» کہے تو اس کا سجدہ پورا ہو گیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ عون بن عبداللہ بن عتبہ کی ملاقات ابن مسعود سے نہیں ہے ۱؎، ۲- اس باب میں حذیفہ اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ اس بات کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات سے کم نہ پڑھے، ۴- عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں امام کے لیے مستحب سمجھتا ہوں کہ وہ پانچ تسبیحات پڑھے تاکہ پیچھے والے لوگوں کو تین تسبیحات مل جائیں اور اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 154 (886)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 20 (888)، (تحفة الأشراف: 9530) (ضعیف) (عون کا سماع ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے، جیسا کہ مولف نے خود بیان کر دیا ہے)»
وضاحت: ۱؎: لیکن ابوبکرہ، جبیر بن مطعم، اور ابو مالک اشعری رضی الله عنہم کی حدیثوں سے اس حدیث کو تقویت مل جاتی ہے، ان سب میں اگرچہ قدرے کلام ہے لیکن مجموعہ طرق سے یہ بات درجہ احتجاج کو پہنچ جاتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (890) // ضعيف سنن ابن ماجة (187)، المشكاة (880)، ضعيف الجامع الصغير (525)، ضعيف أبي داود (187 / 886) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 886، جه 89