(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن ابيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يؤمنا فياخذ شماله بيمينه "، قال: وفي الباب عن وائل بن حجر، وغطيف بن الحارث، وابن عباس، وابن مسعود، وسهل بن سعد، قال ابو عيسى: حديث هلب حديث حسن، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، ومن بعدهم يرون ان يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة، وراى بعضهم ان يضعهما فوق السرة، وراى بعضهم ان يضعهما تحت السرة، وكل ذلك واسع عندهم، واسم هلب: يزيد بن قنافة الطائي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، وابْنِ عَبَّاسٍ، وابْنِ مَسْعُودٍ، وسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ، وَاسْمُ هُلْبٍ: يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ.
ہلب طائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہلب رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں وائل بن حجر، غطیف بن حارث، ابن عباس، ابن مسعود اور سہیل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ۱؎، اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة (809)، (تحفة الأشراف: 11735)، مسند احمد (5/226، 227) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کے برعکس امام مالک سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے وہ شاذ ہے صحیح نہیں، مؤطا امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے شوافع، احناف اور حنابلہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے، اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں سینے پر یا زیر ناف؟ تو بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل ہیں مگر زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے، بعض لوگ سینے پر باندھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وائل بن حجر رضی الله عنہ کی روایت «صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی صدرہ» ہے، اس روایت کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اور یہ ابن خزیمہ کی شرط کے مطابق ہے اور اس کی تائید ہلب الطائی کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «رأیت رسول اللہ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل»(یزید بن قنافہ ہُلب الطائی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سلام پھیرتے وقت) دیکھا کہ آپ (پہلے) دائیں جانب مڑتے اور پھر بائیں جانب، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے، امام احمد بن حنبل کے استاذ یحییٰ بن سعید نے ہلب رضی الله عنہ کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے اوپر باندھ کر کی)۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے (مسند احمد ۵/۲۲۶) اور وائل بن حجر کی روایت پر جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں اضطراب ہے، ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» ہے، بزار کی روایت میں «عند صدرہ» ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے، کیونکہ مجرد اختلاف سے اضطراب لازم نہیں آتا بلکہ اضطراب کے لیے شرط ہے کہ تمام وجوہ اختلاف برابر ہوں اور یہاں ایسا نہیں ہے ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» کا جو لفظ ہے وہ مدرج ہے، اسے جان بوجھ کر بعض مطبع جات کی طرف سے اس روایت میں داخل کر دیا گیا ہے اور ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» اور بزار کی روایت «عند صدرہ» جو آیا ہے تو ان دونوں میں ابن خزیمہ والی روایت راجح ہے، کیونکہ ہلب طائی رضی الله عنہ کی روایت اس کے لیے شاہد ہے، اور طاؤس کی ایک مرسل روایت بھی اس کی تائید میں ہے اس کے برعکس بزار کی حدیث کی کوئی شاہد روایت نہیں۔
وضاحت: ۱؎: ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد (ابوحاتم رازی) کہتے ہیں کہ یحییٰ کو اس میں وہم ہوا ہے، وہ «إذا قام إلى الصلاة رفع إليه مداً» کہنا چاہ رہے تھے لیکن ان سے چوک ہو گئی انہوں نے غلطی سے «إذا كبّر للصلاة نشر أصابعه» کی روایت کر دی، ابن ابی ذئب کے تلامذہ میں سے ثقات نے «إذا قام إلى الصلاة مدّاً» ہی کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة (67)، التعليق على ابن خزيمة (459)، صحيح أبي داود (735)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، والاسود، عن عبد الله بن مسعود، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يكبر في كل خفض ورفع وقيام وقعود "، وابو بكر، وعمر. قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وانس، وابن عمر، وابي مالك الاشعري , وابي موسى , وعمران بن حصين , ووائل بن حجر , وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن مسعود حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر , وعمر، وعثمان , وعلي وغيرهم ومن بعدهم من التابعين وعليه عامة الفقهاء والعلماء.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُكَبِّرُ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ "، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ , وَأَبِي مُوسَى , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , ووَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ , وَعَلِيٌّ وَغَيْرُهُمْ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جھکنے، اٹھنے، کھڑے ہونے اور بیٹھنے کے وقت اللہ اکبر کہتے ۱؎ اور ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، انس، ابن عمر، ابو مالک اشعری، ابوموسیٰ، عمران بن حصین، وائل بن حجر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام کا جن میں ابوبکر، عمر، عثمان علی رضی الله عنہم وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین کا عمل اسی پر ہے اور اسی پر اکثر فقہاء و علماء کا عمل بھی ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس طرح دو رکعت والی نماز میں کل گیارہ تکبیریں اور چار رکعت والی نماز میں ۲۲ تکبیریں ہوئیں اور پانچوں فرض نمازوں میں کل ۹۴ تکبیریں ہوئیں، واضح رہے کہ رکوع سے اٹھتے وقت آپ «سمع الله لمن حمده» کہتے تھے، اس لیے اس حدیث کے عموم سے یہ مستثنیٰ ہے، ان تکبیرات میں سے صرف تکبیر تحریمہ فرض ہے باقی سب سنت ہیں اگر وہ کسی سے چھوٹ جائیں تو نماز ہو جائے گی البتہ فضیلت اور سنت کی موافقت اس سے فوت ہو جائے گی۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جھکتے وقت «الله أكبر» کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے تابعین میں سے اہل علم کا قول یہی ہے کہ رکوع اور سجدہ کے لیے جھکتے ہوئے آدمی «الله أكبر» کہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار بندار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا فليح بن سليمان، حدثنا عباس بن سهل بن سعد، قال: اجتمع ابو حميد وابو اسيد، وسهل بن سعد 63، ومحمد بن مسلمة، فذكروا صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو حميد: انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم " ركع فوضع يديه على ركبتيه كانه قابض عليهما، ووتر يديه فنحاهما عن جنبيه ". قال: وفي الباب عن انس، قال ابو عيسى: حديث ابي حميد حديث حسن صحيح، وهو الذي اختاره اهل العلم ان يجافي الرجل يديه عن جنبيه في الركوع والسجود.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ وَأَبُو أُسَيْدٍ، وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ 63، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَكَعَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَأَنَّهُ قَابِضٌ عَلَيْهِمَا، وَوَتَّرَ يَدَيْهِ فَنَحَّاهُمَا عَنْ جَنْبَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي حُمَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُجَافِيَ الرَّجُلُ يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ.
عباس بن سہل بن سعد کا بیان ہے کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، اور محمد بن مسلمہ (رضی الله عنہم) چاروں اکٹھا ہوئے تو ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر کیا، ابوحمید رضی الله عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہیں، اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کمان کی تانت کی طرح (ٹائٹ) بنایا اور انہیں اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوحمید کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ آدمی رکوع اور سجدے میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 145 (828)، سنن ابی داود/ الصلاة 117 (730)، سنن النسائی/التطبیق 6 (1040)، والسہو 2 (1182)، و29 (1061)، (تحفة الأشراف: 11892)، وکذا (11897)، سنن الدارمی/الصلاة 70 (1346)، (کلہم مختصرا، ولین عند ذکرخ ذکر رفع الیدین إلا عند التحریمة)، ویأتي عند المؤلف بارقام: 270، و293، و304) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (723)، المشكاة (801)، صفة الصلاة (110)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن يحيى بن علي بن يحيى بن خلاد بن رافع الزرقي، عن جده، عن رفاعة بن رافع، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس في المسجد يوما، قال رفاعة: ونحن معه إذ جاءه رجل كالبدوي فصلى فاخف صلاته ثم انصرف، فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " وعليك فارجع فصل فإنك لم تصل، فرجع فصلى ثم جاء فسلم عليه، فقال: وعليك فارجع فصل فإنك لم تصل، ففعل ذلك مرتين او ثلاثا كل ذلك ياتي النبي صلى الله عليه وسلم، فيسلم على النبي صلى الله عليه وسلم، فيقول النبي صلى الله عليه وسلم: وعليك فارجع فصل فإنك لم تصل، فخاف الناس وكبر عليهم ان يكون من اخف صلاته لم يصل "، فقال الرجل في آخر ذلك: فارني وعلمني فإنما انا بشر اصيب واخطئ، فقال: " اجل إذا قمت إلى الصلاة فتوضا كما امرك الله ثم تشهد واقم فإن كان معك قرآن فاقرا وإلا فاحمد الله وكبره وهلله ثم اركع فاطمئن راكعا ثم اعتدل قائما ثم اسجد فاعتدل ساجدا ثم اجلس فاطمئن جالسا ثم قم فإذا فعلت ذلك فقد تمت صلاتك وإن انتقصت منه شيئا انتقصت من صلاتك " قال: وكان هذا اهون عليهم من الاول، انه من انتقص من ذلك شيئا انتقص من صلاته ولم تذهب كلها. قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وعمار بن ياسر، قال ابو عيسى: حديث رفاعة بن رافع حديث حسن، وقد روي عن رفاعة هذا الحديث من غير وجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادِ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا، قَالَ رِفَاعَةُ: وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ كَالْبَدَوِيِّ فَصَلَّى فَأَخَفَّ صَلَاتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَفَعَلَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَخَافَ النَّاسُ وَكَبُرَ عَلَيْهِمْ أَنْ يَكُونَ مَنْ أَخَفَّ صَلَاتَهُ لَمْ يُصَلِّ "، فَقَالَ الرَّجُلُ فِي آخِرِ ذَلِكَ: فَأَرِنِي وَعَلِّمْنِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُصِيبُ وَأُخْطِئُ، فَقَالَ: " أَجَلْ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَتَوَضَّأْ كَمَا أَمَرَكَ اللَّهُ ثُمَّ تَشَهَّدْ وَأَقِمْ فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ وَإِلَّا فَاحْمَدِ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ ثُمَّ ارْكَعْ فَاطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ اعْتَدِلْ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ فَاعْتَدِلْ سَاجِدًا ثُمَّ اجْلِسْ فَاطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ قُمْ فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُكَ وَإِنِ انْتَقَصْتَ مِنْهُ شَيْئًا انْتَقَصْتَ مِنْ صَلَاتِكَ " قَالَ: وَكَانَ هَذَا أَهْوَنَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْأَوَّلِ، أَنَّهُ مَنِ انْتَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا انْتَقَصَ مِنْ صَلَاتِهِ وَلَمْ تَذْهَبْ كُلُّهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ رِفَاعَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، اسی دوران ایک شخص آپ کے پاس آیا جو بدوی لگ رہا تھا، اس نے آ کر نماز پڑھی اور بہت جلدی جلدی پڑھی، پھر پلٹ کر آیا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور تم پر بھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“، تو اس شخص نے واپس جا کر پھر سے نماز پڑھی، پھر واپس آیا اور آ کر اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے پھر فرمایا: ”اور تمہیں بھی سلام ہو، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“، اس طرح اس نے دو بار یا تین بار کیا ہر بار وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو سلام کرتا اور آپ فرماتے: ”تم پر بھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“، تو لوگ ڈرے اور ان پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی نماز پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی، آخر اس آدمی نے عرض کیا، آپ ہمیں (پڑھ کر) دکھا دیجئیے اور مجھے سکھا دیجئیے، میں انسان ہی تو ہوں، میں صحیح بھی کرتا ہوں اور مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے، تو آپ نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو جیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے، پھر اذان دو اور تکبیر کہو اور اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو ورنہ «الحمد لله»، «الله أكبر» اور «لا إله إلا الله» کہو، پھر رکوع میں جاؤ اور خوب اطمینان سے رکوع کرو، اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو، اور خوب اعتدال سے سجدہ کرو، پھر بیٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھو، پھر اٹھو، جب تم نے ایسا کر لیا تو تمہاری نماز پوری ہو گئی اور اگر تم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی نماز میں سے کمی کی“، راوی (رفاعہ) کہتے ہیں: تو یہ بات انہیں پہلے سے آسان لگی کہ جس نے اس میں سے کچھ کمی کی تو اس نے اتنی ہی اپنی نماز سے کمی کی، پوری نماز نہیں گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رفاعہ بن رافع کی حدیث حسن ہے، رفاعہ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عمار بن یاسر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، ومحمد بن المثنى، قالا: حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا عبد الحميد بن جعفر، حدثنا محمد بن عمرو بن عطاء، عن ابي حميد الساعدي، قال: سمعته وهو في عشرة من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، احدهم ابو قتادة بن ربعي، يقول: انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: ما كنت اقدمنا له صحبة ولا اكثرنا له إتيانا، قال: بلى، قالوا: فاعرض، فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة اعتدل قائما ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، فإذا اراد ان يركع رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم قال: " الله اكبر، وركع ثم اعتدل فلم يصوب راسه ولم يقنع، ووضع يديه على ركبتيه، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ورفع يديه واعتدل حتى يرجع كل عظم في موضعه معتدلا، ثم اهوى إلى الارض ساجدا، ثم قال: الله اكبر، ثم جافى عضديه عن إبطيه وفتخ اصابع رجليه ثم ثنى رجله اليسرى وقعد عليها، ثم اعتدل حتى يرجع كل عظم في موضعه معتدلا، ثم اهوى ساجدا، ثم قال: الله اكبر، ثم ثنى رجله وقعد واعتدل حتى يرجع كل عظم في موضعه، ثم نهض ثم صنع في الركعة الثانية مثل ذلك حتى إذا قام من السجدتين كبر ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه كما صنع حين افتتح الصلاة، ثم صنع كذلك حتى كانت الركعة التي تنقضي فيها صلاته اخر رجله اليسرى، وقعد على شقه متوركا ثم سلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: ومعنى قوله ورفع يديه إذا قام من السجدتين يعني قام من الركعتين.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُهُ وَهُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ، يَقُولُ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً وَلَا أَكْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، وَرَكَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ أَهْوَى إِلَى الْأَرْضِ سَاجِدًا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ إِبْطَيْهِ وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَيْهَا، ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ أَهْوَى سَاجِدًا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ وَقَعَدَ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ، ثُمَّ نَهَضَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ صَنَعَ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَتِ الرَّكْعَةُ الَّتِي تَنْقَضِي فِيهَا صَلَاتُهُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَقَعَدَ عَلَى شِقِّهِ مُتَوَرِّكًا ثُمَّ سَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ يَعْنِي قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ.
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو حمید ساعدی رضی الله عنہ کو کہتے ہیں سنا (جب) صحابہ کرام میں سے دس لوگوں کے ساتھ تھے، ان میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابوحمید رضی الله عنہ کہہ رہے تھے کہ میں تم میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی نماز کا سب سے زیادہ جانکار ہوں، تو لوگوں نے کہا کہ تمہیں نہ تو ہم سے پہلے صحبت رسول میسر ہوئی اور نہ ہی تم ہم سے زیادہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے) اس پر لوگوں نے کہا (اگر تم زیادہ جانتے ہو) تو پیش کرو، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو بالکل سیدھے کھڑے ہو جاتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر «الله أكبر» کہتے اور رکوع کرتے اور بالکل سیدھے ہو جاتے، نہ اپنا سر بالکل نیچے جھکاتے اور نہ اوپر ہی اٹھائے رکھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور سیدھے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ جسم کی ہر ایک ہڈی سیدھی ہو کر اپنی جگہ پر لوٹ آتی پھر سجدہ کرنے کے لیے زمین کی طرف جھکتے، پھر «الله أكبر» کہتے اور اپنے بازوؤں کو اپنی دونوں بغل سے جدا رکھتے، اور اپنے پیروں کی انگلیاں کھلی رکھتے، پھر اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور سیدھے ہو جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آتی، اور آپ اٹھتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ دوسری رکعت سے جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھتے تو «الله أكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں کرتے جیسے اس وقت کیا تھا جب آپ نے نماز شروع کی تھی، پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب وہ رکعت ہوتی جس میں نماز ختم ہو رہی ہو تو اپنا بایاں پیر مؤخر کرتے یعنی اسے داہنی طرف دائیں پیر کے نیچے سے نکال لیتے اور سرین پر بیٹھتے، پھر سلام پھیرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور ان کے قول «رفع يديه إذا قام من السجدتين»”دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے“ کا مطلب ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔