(مرفوع) حدثنا العباس الدوري، حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة بن شريح، اخبرني ابو هانئ الخولاني، ان ابا علي عمرو بن مالك الجنبي اخبره، عن فضالة بن عبيد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: كان إذا صلى بالناس يخر رجال من قامتهم في الصلاة من الخصاصة وهم اصحاب الصفة، حتى يقول الاعراب: هؤلاء مجانين او مجانون، فإذا صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف إليهم فقال: " لو تعلمون ما لكم عند الله لاحببتم ان تزدادوا فاقة وحاجة، قال فضالة: وانا يومئذ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا صَلَّى بِالنَّاسِ يَخِرُّ رِجَالٌ مِنْ قَامَتِهِمْ فِي الصَّلَاةِ مِنَ الْخَصَاصَةِ وَهُمْ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ، حَتَّى يَقُولَ الْأَعْرَابُ: هَؤُلَاءِ مَجَانِينُ أَوْ مَجَانُونَ، فَإِذَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: " لَوْ تَعْلَمُونَ مَا لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ لَأَحْبَبْتُمْ أَنْ تَزْدَادُوا فَاقَةً وَحَاجَةً، قَالَ فَضَالَةُ: وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو صف میں کھڑے بہت سے لوگ بھوک کی شدت کی وجہ سے گر پڑتے تھے، یہ لوگ اصحاب صفہ تھے، یہاں تک کہ اعراب (دیہاتی لوگ) کہتے کہ یہ سب پاگل اور مجنون ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: اگر تم لوگوں کو اللہ کے نزدیک اپنا مرتبہ معلوم ہو جائے تو تم اس سے کہیں زیادہ فقر و فاقہ اور حاجت کو پسند کرتے“۱؎، فضالہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصحاب صفہ کس قدر تنگی اور فقر و فاقہ کی حالت میں تھے، پھر بھی ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے صبر و قناعت کی زندگی گزارتے تھے، یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی علوم کے سیکھنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرنا چاہیئے جہاں تعلیمی و تربیتی معیار اچھا ہو چاہے کھانے پینے کی سہولتوں کی کمی ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اصحاب صفہ کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (4 / 120)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله بن عمرو الرقي، عن عبد الملك بن عمير، عن موسى بن طلحة، عن ابي هريرة، قال: لما نزلت وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا فخص وعم، فقال: " يا معشر قريش، انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم من الله ضرا ولا نفعا، يا معشر بني عبد مناف انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم من الله ضرا ولا نفعا، يا معشر بني قصي انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم ضرا ولا نفعا، يا معشر بني عبد المطلب انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم ضرا ولا نفعا، يا فاطمة بنت محمد انقذي نفسك من النار فإني لا املك لك ضرا ولا نفعا إن لك رحما سابلها ببلالها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه يعرف من حديث موسى بن طلحة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَخَصَّ وَعَمَّ، فَقَالَ: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي قُصَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِنَّ لَكِ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين»”اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے“ نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ میں تمہیں کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبدالمطلب کے لوگو! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں کسی طرح کا ضرر یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچا لے، کیونکہ میں تجھے کوئی نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، تم سے میرا رحم (خون) کا رشتہ ہے سو میں احساس کو تازہ رکھوں گا“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: موسیٰ بن طلحہ کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔