(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن محمد بن سيرين، قال: كنا عند ابي هريرة، وعليه ثوبان ممشقان من كتان فتمخط في احدهما، ثم قال: " بخ بخ يتمخط ابو هريرة في الكتان لقد رايتني وإني لاخر فيما بين منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وحجرة عائشة من الجوع مغشيا علي فيجيء الجائي فيضع رجله على عنقي يرى ان بي الجنون وما بي جنون وما هو إلا الجوع " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَشَّقَانِ مِنْ كَتَّانٍ فَتَمَخَّطَ فِي أَحَدِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: " بَخٍ بَخٍ يَتَمَخَّطُ أَبُو هُرَيْرَةَ فِي الْكَتَّانِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لَأَخِرُّ فِيمَا بَيْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحُجْرَةِ عَائِشَةَ مِنَ الْجُوعِ مَغْشِيًّا عَلَيَّ فَيَجِيءُ الْجَائِي فَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى عُنُقِي يَرَى أَنَّ بِيَ الْجُنُونَ وَمَا بِي جُنُونٌ وَمَا هُوَ إِلَّا الْجُوعُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ رضی الله عنہ کی خدمت میں موجود تھے، آپ کے پاس گیرو سے رنگے ہوئے دو کتان کے کپڑے تھے، انہوں نے ایک کپڑے میں ناک پونچھی اور کہا: واہ واہ، ابوہریرہ! کتان میں ناک پونچھتا ہے، حالانکہ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، اور حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کے درمیان بھوک کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہو کر گر پڑتا تو کوئی آنے والا آتا اور میری گردن پر اپنا پاؤں رکھ دیتا اور سمجھتا کہ میں پاگل ہوں، حالانکہ میں پاگل نہیں ہوتا تھا ایسا صرف بھوک کی شدت کی وجہ سے ہوتا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اور اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا ابو زيد، عن عوف، عن قسامة بن زهير، حدثنا الاشعري، قال: لما نزل وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم اصبعيه في اذنيه فرفع من صوته، فقال: " يا بني عبد مناف يا صباحاه ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه من حديث ابي موسى، وقد رواه بعضهم، عن عوف، عن قسامة بن زهير، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، ولم يذكر فيه عن ابي موسى، وهو اصح ذاكرت به محمد بن إسماعيل فلم يعرفه من حديث ابي موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فَرَفَعَ مِنْ صَوْتِهِ، فَقَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ يَا صَبَاحَاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي مُوسَى، وَهُوَ أَصَحُّ ذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «وأنذر عشيرتك الأقربين» نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں کانوں میں (اذان کی طرح) ڈال کر بلند آواز سے پکار کہا: یا بنی عبد مناف! یا صباحاہ! اے عبد مناف کے لوگو! جمع ہو جاؤ (اور سنو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- بعض نے اس حدیث کو عوف سے، اور عوف نے قسامہ بن زہیر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں ابوموسیٰ (اشعری) سے روایت کا ذکر نہیں کیا اور یہی زیادہ صحیح ہے، ۳- میں نے اس کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کے واسطہ سے اس حدیث کی معرفت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔