(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر، عن محمد بن ابي حميد، عن إسماعيل بن محمد بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، عن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سعادة ابن آدم رضاه بما قضى الله له، ومن شقاوة ابن آدم، تركه استخارة الله، ومن شقاوة ابن آدم، سخطه بما قضى الله له "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن ابي حميد، ويقال له ايضا: حماد بن ابي حميد، وهو ابو إبراهيم المدني وليس هو بالقوي عند اهل الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ، تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللَّهِ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ، سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، وَيُقَالُ لَهُ أَيْضًا: حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَهُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْمَدَنِيُّ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا ابن آدم کی سعادت (نیک بختی) ہے، اللہ سے خیر طلب نہ کرنا ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) ہے اور اللہ کے فیصلے پر ناراض ہونا ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف محمد بن ابی حمید کی روایت سے جانتے ہیں، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، ان کی کنیت ابوابراہیم ہے، اور مدینہ کے رہنے والے ہیں، یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3934) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن أبی حمید“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1800)، التعليق الرغيب (1 / 244) // ضعيف الجامع الصغير (5300) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2151) إسناده ضعيف محمد بن أبى حميد: ضعيف (تق:5836) وقال الحافظ ابن حجر: وھو ضعيف عند الجمھور (الأمالي المطلقة ص 38، المكتبة الشاملة)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عاصم، حدثنا حيوة بن شريح، اخبرني ابو صخر، قال: حدثني نافع، ان ابن عمر جاءه رجل، فقال: إن فلانا يقرا عليك السلام، فقال له: إنه بلغني انه قد احدث، فإن كان قد احدث، فلا تقرئه مني السلام، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يكون في هذه الامة او في امتي الشك منه خسف او مسخ او قذف في اهل القدر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وابو صخر اسمه حميد بن زياد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ، فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوْ فِي أُمَّتِي الشَّكُّ مِنْهُ خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو صَخْرٍ اسْمُهُ حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ.
نافع کا بیان ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا: فلاں شخص نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، اس سے ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے، اگر اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے تو اسے میرا سلام نہ پہنچانا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اس امت میں یا میری امت میں، (یہ شک راوی کی طرف سے ہوا ہے) تقدیر کا انکار کرنے والوں پر «خسف»، «مسخ» یا «قذف» کا عذاب ہو گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابوصخر کا نام حمید بن زیاد ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم ذكر الدجال فقال: " إني لانذركموه، وما من نبي إلا وقد انذر قومه، ولقد انذره نوح قومه، ولكني ساقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه، تعلمون انه اعور وإن الله ليس باعور "، قال الزهري، واخبرني عمر بن ثابت الانصاري، انه اخبره بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال يومئذ للناس وهو يحذرهم فتنته: " تعلمون انه لن يرى احد منكم ربه حتى يموت، وإنه مكتوب بين عينيه ك ف ر، يقرؤه من كره عمله " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: " إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ، تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ "، قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَأَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَئِذٍ لِلنَّاسِ وَهُوَ يُحَذِّرُهُمْ فِتْنَتَهُ: " تَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ حَتَّى يَمُوتَ، وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ك ف ر، يَقْرَؤُهُ مَنْ كَرِهَ عَمَلَهُ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی شان کے لائق اس کی تعریف کی پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ”میں تمہیں دجال سے ڈرا رہا ہوں اور تمام نبیوں نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا ہے، نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے، لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہہ رہا ہوں جسے کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی، تم لوگ اچھی طرح جان لو گے کہ وہ کانا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں“، زہری کہتے ہیں: ہمیں عمر بن ثابت انصاری نے خبر دی کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس دن لوگوں کو دجال کے فتنے سے ڈرا رہے تھے (اس دن) آپ نے فرمایا: ”تم جانتے ہو کہ کوئی آدمی اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا، اور اس کی آنکھوں کے درمیان ”ک، ف، ر“ لکھا ہو گا، اس کے عمل کو ناپسند سمجھنے والے اسے پڑھ لیں گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی دجال دنیا میں ربوبیت کا دعویدار ہو گا اور ساتھ ہی کانا بھی ہو گا، جب کہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ کو کوئی مرنے سے قبل دنیا میں نہیں دیکھ سکتا، وہ ہر عیب سے پاک ہے، دجال کے کفر سے وہی لوگ آگاہ ہوں گے جو اس کے عمل سے بےزار ہوں گے۔