(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن ابي شريح الكعبي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الضيافة ثلاثة ايام، وجائزته يوم وليلة، وما انفق عليه بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له ان يثوي عنده حتى يحرجه "، وفي الباب عن عائشة، وابي هريرة، وقد رواه مالك بن انس، والليث بن سعد، عن سعيد المقبري، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو شريح الخزاعي هو الكعبي، وهو العدوي اسمه خويلد بن عمرو، ومعنى قوله: " لا يثوي عنده " يعني: الضيف، لا يقيم عنده حتى يشتد على صاحب المنزل، والحرج: هو الضيق، إنما قوله حتى يحرجه يقول حتى يضيق عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَمَا أُنْفِقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ هُوَ الْكَعْبِيُّ، وَهُوَ الْعَدَوِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " لَا يَثْوِي عِنْدَهُ " يَعْنِي: الضَّيْفَ، لَا يُقِيمُ عِنْدَهُ حَتَّى يَشْتَدَّ عَلَى صَاحِبِ الْمَنْزِلِ، وَالْحَرَجُ: هُوَ الضِّيقُ، إِنَّمَا قَوْلُهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ يَقُولُ حَتَّى يُضَيِّقَ عَلَيْهِ.
ابوشریح کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضیافت (مہمان نوازی) تین دین تک ہے، اور مہمان کا عطیہ (یعنی اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کرنا) ایک دن اور ایک رات تک ہے، اس کے بعد جو کچھ اس پر خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے، مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے پاس (تین دن کے بعد بھی) ٹھہرا رہے جس سے اپنے میزبان کو پریشانی و مشقت میں ڈال دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک بن انس اور لیث بن سعد نے اس حدیث کی روایت سعید مقبری سے کی ہے، ۳- ابوشریح خزاعی کی نسبت الکعبی اور العدوی ہے، اور ان کا نام خویلد بن عمرو ہے، ۴- اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- «لا يثوي عنده» کا مطلب یہ ہے کہ مہمان گھر والے کے پاس ٹھہرا نہ رہے تاکہ اس پر گراں گزرے، ۶- «الحرج» کا معنی «الضيق»(تنگی ہے) اور «حتى يحرجه» کا مطلب ہے «يضيق عليه» یہاں تک کہ وہ اسے پریشانی و مشقت میں ڈال دے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 31 (6019)، و 85 (6135)، والرقاق 23 (6476)، سنن ابی داود/ الأطعمة 5 (3748)، سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3675) (تحفة الأشراف: 2056) و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ 10 (22)، و مسند احمد (4/31)، و (6/384)، و سنن الدارمی/الأطعمة 11 (2078) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (3 / 242)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي شريح العدوي، انه قال: ابصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعته اذناي حين تكلم به، قال: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته "، قالوا: وما جائزته؟ قال: " يوم وليلة، والضيافة ثلاثة ايام، وما كان بعد ذلك فهو صدقة، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليسكت "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ "، قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ؟ قَالَ: " يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اور کانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے“، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت و تکریم اور آؤ بھگت کیا ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات، اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ صدقہ ہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 31 (6019) و 85 (6135)، والرقاق 23 (6476)، صحیح مسلم/الإیمان 19 (48)، سنن ابی داود/ الأطعمة 5 (3748)، سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3675) (تحفة الأشراف: 12056)، وط/صفة النبي ﷺ 10 (22)، و مسند احمد (4/31)، و (6/384)، وسنن الدارمی/الأطعمة 11 (2078) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانا بنایا جائے۔
۲؎: اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں، مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیا جائے، اس کی مہمان نوازی کی جائے، پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کیا جائے، مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے، اپنی زبان ذکر الٰہی، توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بےفائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليصمت " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وفي الباب عن عائشة، وانس، وابي شريح العدوي الكعبي الخزاعي واسمه: خويلد بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن عَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ الْكَعْبِيِّ الْخُزَاعِيِّ وَاسْمُهُ: خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 31 (6018)، صحیح مسلم/الإیمان 19 (14)، سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3976) (تحفة الأشراف: 15272)، و مسند احمد (2/267، 269، 433، 463) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے، یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہو جائے۔