(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، وعن بسر بن سعيد، وعن الاعرج يحدثونه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح، ومن ادرك من العصر ركعة قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر ". وفي الباب عن عائشة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وبه يقول اصحابنا والشافعي , واحمد , وإسحاق، ومعنى هذا الحديث عندهم لصاحب العذر، مثل الرجل الذي ينام عن الصلاة او ينساها فيستيقظ ويذكر عند طلوع الشمس وعند غروبها.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، وعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنْ الْأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ يَقُولُ أَصْحَابُنَا وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَهُمْ لِصَاحِبِ الْعُذْرِ، مِثْلُ الرَّجُلِ الَّذِي يَنَامُ عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ يَنْسَاهَا فَيَسْتَيْقِظُ وَيَذْكُرُ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ہمارے اصحاب، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ حدیث ان کے نزدیک صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً ایسے شخص کے لیے جو نماز سے سو گیا اور سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت بیدار ہوا ہو یا اسے بھول گیا ہو اور وہ سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت اسے نماز یاد آئی ہو۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضاء نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہو گی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہو گیا اور وہ نماز اس پر واجب ہو گئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا ہو یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہو گی، لیکن نسائی کی روایت جس میں «فليتم صلاته» کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، وسعيد بن عبد الرحمن، وغير واحد، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من ادرك من الصلاة ركعة فقد ادرك الصلاة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، قالوا: من ادرك ركعة من الجمعة صلى إليها اخرى، ومن ادركهم جلوسا صلى اربعا. وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْجُمُعَةِ صَلَّى إِلَيْهَا أُخْرَى، وَمَنْ أَدْرَكَهُمْ جُلُوسًا صَلَّى أَرْبَعًا. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز میں ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی تو وہ دوسری رکعت (خود سے) پڑھ لے اور جس نے لوگوں کو سجدے میں پایا تو وہ چار رکعت (ظہر کی نماز) پڑھے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جماعت کی فضیلت اس نے پالی، یا اس نے نماز کا وقت پا لیا، اس کے عموم میں جمعہ کی نماز بھی داخل ہے، اس لیے جمعہ کی دو رکعتوں میں اگر کوئی ایک رکعت بھی پا لے تو گویا اس نے پوری نماز جمعہ جماعت سے پالی۔
۲؎: کیا نماز جمعہ میں امام کے ساتھ دوسری رکعت کے کسی بھی حصے میں شامل ہونے والا ظہر کی پوری چار رکعت پڑھے گا یا صرف دو رکعت مکمل کرے گا؟ اس موضوع پر تفصیل جاننے کے لیے ”قول ثابت اردو شرح مؤطا امام مالک“ کی ”کتاب وقوف الصلاۃ کے باب وقت الجمعۃ“ کا مطالعہ کر لیں، بموجب صحیح مسلک بالاختصار یہ ہے کہ ایسا مقتدی دو رکعت ہی پڑھے، چار نہیں۔