(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا حفص بن غياث، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام فإنه زاد إخوانكم من الجن ". وفي الباب: عن ابي هريرة , وسلمان , وجابر , وابن عمر. قال ابو عيسى: وقد روى هذا الحديث إسماعيل بن إبراهيم وغيره، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن علقمة، عن عبد الله، انه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة الجن الحديث بطوله، فقال الشعبي: إن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام فإنه زاد إخوانكم من الجن " , وكان رواية إسماعيل اصح من رواية حفص بن غياث، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم، وفي الباب: عن جابر , وابن عمر رضي الله عنهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَسَلْمَانَ , وَجَابِرٍ , وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَغَيْرُهُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ " , وَكَأَنَّ رِوَايَةَ إِسْمَاعِيل أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَفِي الْبَاب: عَنْ جَابِرٍ , وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائیوں جنوں کی خوراک ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوہریرہ، سلمان، جابر، ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث مروی ہیں۔ ۲- اسماعیل بن ابراہیم وغیرہ نے بسند «داود ابن ابی ہند عن شعبی عن علقمہ» روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ «لیلة الجن» میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۲؎ آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی جو لمبی ہے، شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہارے بھائیوں (جنوں) کی خوراک ہے، ۳- گویا اسماعیل بن ابراہیم کی روایت حفص بن غیاث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۳؎، ۴- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، ۵- اور اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہی صحیح ہے کہ ہڈی اور گوبر دونوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے جنوں کا توشہ قرار دیا، اور وہ روایتیں ضعیف ہیں جن میں ہے کہ ہڈی جنوں کا، اور گوبر ان کے جانوروں کا توشہ ہے (دیکھئیے ضعیفہ رقم: ۱۰۳۸)۔
۲؎: امام ترمذی نے اس سند سے جس لمبی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو خود وہ سورۃ الاحقاف کی تفسیر میں (رقم: ۳۲۵۸) لائے ہیں (نیز یہ حدیث مسلم (رقم ۴۵۰) میں بھی ہے) اس میں تو صاف ذکر ہے کہ سوال کرنے پر عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے اپنے کو «لیلۃ الجن» میں موجود ہونے سے انکار کیا، اور صحیح بات یہی ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ کے اس «لیلۃ الجن» میں موجود رہنے کی تمام روایات ضعیف ہیں، جن میں جنوں نے اپنے کھانے کا سوال کیا تھا، یا جس میں نبیذ سے وضو کا ذکر ہے، ہاں دو تین بار کسی اور موقع سے جنوں سے ملاقات کی رات آپ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے (الکوکب الدری فی شرح الترمذی)
۳؎: حفص بن غیاث اور اسماعیل بن ابراہیم کی حدیثوں میں فرق یہ ہے کہ حفص کی روایت سے «لا تستنجوا ……» کی حدیث متصل مرفوع ہے، جبکہ اسماعیل کی روایت سے یہ شعبی کی مرسل حدیث ہو جاتی ہے (اور اس ارسال پر دیگر بہت سے ثقات نے اسماعیل کی متابعت کی ہے) اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے، مگر صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت (جس کا تذکرہ مؤلف نے کیا ہے) اس کی صحیح شاہد ہے، نیز دیگر شواہد سے اصل حدیث ثابت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (46)، المشكاة (350)، الضعيفة تحت الحديث (1038)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن داود، عن الشعبي، عن علقمة، قال: قلت لابن مسعود رضي الله عنه: هل صحب النبي صلى الله عليه وسلم ليلة الجن منكم احد؟ قال: ما صحبه منا احد، ولكن قد افتقدناه ذات ليلة وهو بمكة، فقلنا: اغتيل او استطير ما فعل به، فبتنا بشر ليلة بات بها قوم، حتى إذا اصبحنا او كان في وجه الصبح إذا نحن به يجيء من قبل حراء، قال: فذكروا له الذي كانوا فيه، فقال: اتاني داعي الجن فاتيتهم، فقرات عليهم، فانطلق فارانا آثارهم وآثار نيرانهم، قال الشعبي: وسالوه الزاد وكانوا من جن الجزيرة، فقال: كل عظم يذكر اسم الله عليه يقع في ايديكم اوفر ما كان لحما، وكل بعرة او روثة علف لدوابكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فلا تستنجوا بهما فإنهما زاد إخوانكم الجن ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ مِنْكُمْ أَحَدٌ؟ قَالَ: مَا صَحِبَهُ مِنَّا أَحَدٌ، وَلَكِنْ قَدِ افْتَقَدْنَاهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ بِمَكَّةَ، فَقُلْنَا: اغْتِيلَ أَوِ اسْتُطِيرَ مَا فُعِلَ بِهِ، فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ، حَتَّى إِذَا أَصْبَحْنَا أَوْ كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ إِذَا نَحْنُ بِهِ يَجِيءُ مِنْ قِبَلِ حِرَاءَ، قَالَ: فَذَكَرُوا لَهُ الَّذِي كَانُوا فِيهِ، فَقَالَ: أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَأَتَيْتُهُمْ، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمْ، فَانْطَلَقَ فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ، قَالَ الشَّعْبِيُّ: وَسَأَلُوهُ الزَّادَ وَكَانُوا مِنْ جِنِّ الْجَزِيرَةِ، فَقَالَ: كُلُّ عَظْمٍ يُذْكَرُ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا كَانَ لَحْمًا، وَكُلُّ بَعْرَةٍ أَوْ رَوْثَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا زَادُ إِخْوَانِكُمُ الْجِنِّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے کہا: کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا: آپ کا اغوا کر لیا گیا ہے یا (جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لا رہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکرو تشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا“، ابن مسعود کہتے ہیں: ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اور ہمیں ان کے آثار (نشانات و ثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا: ”ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) فرمایا: ”(اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 33 (450)، سنن ابی داود/ الطھارة 42 (85) (تحفة الأشراف: 9363) (صحیح) (اس حدیث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم 1038)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة اسم الله و " علف لدوابكم "، الضعيفة (1038)