سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
46. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْقَافِ
باب: سورۃ الاحقاف سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3258
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ مِنْكُمْ أَحَدٌ؟ قَالَ: مَا صَحِبَهُ مِنَّا أَحَدٌ، وَلَكِنْ قَدِ افْتَقَدْنَاهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ بِمَكَّةَ، فَقُلْنَا: اغْتِيلَ أَوِ اسْتُطِيرَ مَا فُعِلَ بِهِ، فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ، حَتَّى إِذَا أَصْبَحْنَا أَوْ كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ إِذَا نَحْنُ بِهِ يَجِيءُ مِنْ قِبَلِ حِرَاءَ، قَالَ: فَذَكَرُوا لَهُ الَّذِي كَانُوا فِيهِ، فَقَالَ: أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَأَتَيْتُهُمْ، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمْ، فَانْطَلَقَ فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ، قَالَ الشَّعْبِيُّ: وَسَأَلُوهُ الزَّادَ وَكَانُوا مِنْ جِنِّ الْجَزِيرَةِ، فَقَالَ: كُلُّ عَظْمٍ يُذْكَرُ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا كَانَ لَحْمًا، وَكُلُّ بَعْرَةٍ أَوْ رَوْثَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا زَادُ إِخْوَانِكُمُ الْجِنِّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے کہا: کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا: آپ کا اغوا کر لیا گیا ہے یا
(جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لا رہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکرو تشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جنوں کا قاصد
(مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا
“، ابن مسعود کہتے ہیں: ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اور ہمیں ان کے آثار
(نشانات و ثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا:
”ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید
(گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے
“، پھر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے
(صحابہ سے) فرمایا:
”(اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 33 (450)، سنن ابی داود/ الطھارة 42 (85) (تحفة الأشراف: 9363) (صحیح) (اس حدیث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم 1038)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة اسم الله و " علف لدوابكم "، الضعيفة (1038)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3258 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3258
اردو حاشہ:
وضاحت:
نوٹ:
(اس حدیث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو: (الضعیفة رقم: 1038)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3258
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 39
´ہڈی سے استنجاء کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ تم میں سے کوئی ہڈی یا گوبر سے استنجاء کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 39]
39۔ اردو حاشیہ:
➊ نجاست سے صفائی، بالعموم پانی یا مٹی کے ساتھ ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ دونوں شرعاً و عرفاً مطہر ہیں۔ صفائی کے علاوہ بدبو بھی ختم کرتے ہیں۔ باقی چیزیں مکمل صفائی کرتی ہیں نہ بدبو ہی ختم کرتی ہیں۔
➋ ہڈی میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں، بلکہ وہ سخت ہوتی ہے، لہٰذا وہ صحیح صفائی نہ کر سکے گی اور گوبر یا لید تو خود بھی نجس یا نجاست کی طرح ہیں۔ ان سے کیا صفائی ہو گی؟ علاوہ ازیں ہڈی اور لید جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک بھی ہیں، لہٰذا انہیں گندگی سے آلودہ کرنا منع ہے، احادیث میں اس کی صراحت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 39
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1007
عامر سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا لیلۃ الجن کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ (یعنی جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں سے ملاقات فرمائی) انہوں نے کہا: نہیں۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/ باب الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصُّبْحِ وَالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنِّ:/ فواد: 450، دارالسلام: 1007]
نبیذ کے ساتھ وضو کا حکم تسلیم کرنے والے اپنے دلائل میں ایک یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
❀ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شب جن“ (جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے ساتھ ملاقات کی) مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے، میں نے عرض کیا: میرے پاس پانی نہیں ہے البتہ میرے پاس ایک برتن ہے جس میں نبید ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ فَتَوَضَّأَ بِهِ» ”اسے انڈیل کر اس کے ساتھ وضو کرو“ اور یہ بھی فرمایا: ”یہ پینے کی چیز اور پاک کرنے والا ہے۔“ [ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 385]
➊ گذشتہ حدیث حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جس میں نیبذ سے وضو کا جواز موجود ہے
”شب جن والی۔
“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 385] ➋ بلکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف حدیث مروی ہے کہ
«لَمْ أَكُنْ لَيْلَةَ الْجِنِّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَهُ» ”میں شب جن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود نہیں تھا حالانکہ میری خواہش تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا۔
[صحيح مسلم/ فواد: 450، دارالسلام: 1010] (امام نووی رحمہ اللہ) یہ
(صحيح مسلم کی) حدیث سنن ابی داود میں مروی حدیث
”کہ جس میں نبیذ سے وضو اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا شب جن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونا مذکور ہے
“ کے بطلان میں واضح
(ثبوت) ہے کیونکہ یہ حدیث صحیح ہے اور روایت نبیذ محدثین کے اتفاق کے ساتھ ضعیف ہے۔
[شرح مسلم 307/2] ➍ ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے والد شب جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے؟ تو انہوں نے کہا:
”نہیں۔
“ [دارقطني 77/1] ➎ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔
[ترمذي بعد الحديث 77] فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 138
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 18
´کن کن چیزوں سے استنجاء کرنا مکروہ ہے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائیوں جنوں کی خوراک ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 18]
اردو حاشہ:
1؎:
یہی صحیح ہے کہ ہڈی اورگوبر دونوں کوآپ ﷺ نے جنوں کا توشہ قراردیا،
اوروہ روایتیں ضعیف ہیں جن میں ہے کہ ہڈی جنوں کا،
اورگوبر اُن کے جانوروں کا توشہ ہے (دیکھئے ضعیفہ رقم: 1038)
2؎:
امام ترمذی نے اس سند سے جس لمبی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو خود وہ سورہ احقاف کی تفسیرمیں (رقم: 3258) لائے ہیں ”نیزیہ حدیث مسلم (رقم: 450) میں بھی ہے“ اس میں تو صاف ذکر ہے کہ سوال کرنے پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے کو ”لیلۃ الجن“ میں موجود ہونے سے انکار کیا،
اورصحیح بات یہی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس ”لیلۃ الجن“ میں موجود رہنے کی تمام روایات ضعیف ہیں،
جن میں جنوں نے اپنے کھانے کا سوال کیا تھا،
یا جس میں نبیذ سے وضو کا ذکر ہے،
ہاں دوتین بارکسی اورموقع سے جنوں سے ملاقات کی رات آپ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے (الکوکب الدری فی شرح الترمذی)
3؎:
حفص بن غیاث اوراسماعیل بن ابراہیم کی حدیثوں میں فرق یہ ہے کہ حفص کی روایت سے ((لاَتَسْتَنْجُوا .....)) کی حدیث متصل مرفوع ہے،
جبکہ اسماعیل کی روایت سے یہ شعبی کی مرسل حدیث ہوجاتی ہے (اوراس ارسال پردیگربہت سے ثقات نے اسماعیل کی متابعت کی ہے) اورمرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے،
مگر صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (جس کا تذکرہ مؤلف نے کیا ہے) اس کی صحیح شاہد ہے،
نیز دیگرشواہد سے اصل حدیث ثابت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 18