(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد، وكان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير وجه عن عائشة، انها قالت: " كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد "، ولم يذكروا فيه هذا الحرف، " وكان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة "، وعبد الرحمن بن ابي الزناد ثقة، كان مالك بن انس يوثقه ويامر بالكتابة عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، وَكَانَ لَهُ شَعْرٌ فَوْقَ الْجُمَّةِ وَدُونَ الْوَفْرَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ "، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ هَذَا الْحَرْفَ، " وَكَانَ لَهُ شَعْرٌ فَوْقَ الْجُمَّةِ وَدُونَ الْوَفْرَةِ "، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ثِقَةٌ، كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُوَثِّقُهُ وَيَأْمُرُ بِالْكِتَابَةِ عَنْهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھی، آپ کے بال «جمہ» سے چھوٹے اور «وفرہ» سے بڑے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- دوسری سندوں سے یہ حدیث عائشہ سے یوں مروی ہے، کہتی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھی، راویوں نے اس حدیث میں یہ جملہ نہیں بیان کیا ہے، «وكان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة» ۳- عبدالرحمٰن بن ابی زناد ثقہ ہیں، مالک بن انس ان کی توثیق کرتے تھے اور ان کی روایت لکھنے کا حکم دیتے تھے۔
وضاحت: ۱؎: «جمہ»: ایسے بال جو کندھوں تک لٹکتے ہیں، اور «وفرہ» کان کی لو تک لٹکنے والے بال کو کہتے ہیں، بال تین طرح کے ہوتے ہیں: «جمہ»، «وفرہ»، اور «لمہ»، «لمة»: ایسے بال کو کہتے ہیں جو کان کی لو سے نیچے اور کندھوں سے اوپر ہوتا ہے، (یعنی «وفرہ» سے بڑے اور «جمہ» سے جھوٹے) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بال «جمہ» یعنی کندھوں تک لٹکنے والے تھے، ممکن ہے کبھی «جمہ» رکھتے تھے اور کبھی «لمہ» نیز کبھی «وفرہ» بھی رکھتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (604 و 3635)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن ابي الشعثاء، عن ابن عباس، قال: حدثتني ميمونة، قالت: " كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد من الجنابة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو قول عامة الفقهاء: ان لا باس ان يغتسل الرجل والمراة من إناء واحد. قال: وفي الباب عن علي , وعائشة , وانس , وام هانئ , وام صبية الجهنية , وام سلمة , وابن عمر. قال ابو عيسى: وابو الشعثاء اسمه: جابر بن زيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنَ الْجَنَابَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ: أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَغْتَسِلَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَعَائِشَةَ , وَأَنَسٍ , وَأُمِّ هَانِئٍ , وَأُمِّ صُبَيَّةَ الْجُهَنِيَّةِ , وَأُمِّ سَلَمَةَ , وَابْنِ عُمَرَ. قال أبو عيسى: وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ: جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے میمونہ رضی الله عنہا نے بیان کیا کہ میں اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ مرد اور عورت کے ایک ہی برتن سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں، ۳- اس باب میں علی، عائشہ، انس، ام ہانی، ام حبیبہ، ام سلمہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض10 (322) سنن النسائی/الطہارة 146 (237) سنن ابن ماجہ/الطہارة35 (377) (تحفة الأشراف: 18097) مسند احمد (6/329) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور غسل جائز ہے تو وضو بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔