(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " لولا ان اشق على امتي لامرتهم ان يؤخروا العشاء إلى ثلث الليل او نصفه ". قال: وفي الباب عن جابر بن سمرة , وجابر بن عبد الله , وابي برزة , وابن عباس , وابي سعيد الخدري , وزيد بن خالد , وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وهو الذي اختاره اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، والتابعين وغيرهم راوا تاخير صلاة العشاء الآخرة، وبه يقول احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُؤَخِّرُوا الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبِي بَرْزَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا تَأْخِيرَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاقُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں عشاء کو تہائی رات یا آدھی رات تک دیر کر کے پڑھنے کا حکم دیتا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں
: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر بن سمرہ، جابر بن عبداللہ، ابوبرزہ، ابن عباس، ابو سعید خدری، زید بن خالد اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی کو صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم نے پسند کیا ہے، ان کی رائے ہے کہ عشاء تاخیر سے پڑھی جائے، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصلاة 8 (690)، (تحفة الأشراف: 12988)، مسند احمد (2/245) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء مذکور وقت تک مؤخر کر کے پڑھنا افضل ہے، صرف اسی نماز کے ساتھ خاص ہے، باقی اور نمازیں اول وقت ہی پر پڑھنا افضل ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاة ". قال ابو عيسى: وقد روى هذا الحديث محمد بن إسحاق، عن محمد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، عن زيد بن خالد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث ابي سلمة، عن ابي هريرة , وزيد بن خالد، عن النبي صلى الله عليه وسلم كلاهما عندي صحيح، لانه قد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث، وحديث ابي هريرة إنما صح، لانه قد روي من غير وجه، واما محمد بن إسماعيل فزعم ان حديث ابي سلمة، عن زيد بن خالد اصح. قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي بكر الصديق , وعلي , وعائشة , وابن عباس , وحذيفة , وزيد بن خالد , وانس , وعبد الله بن عمرو , وابن عمر , وام حبيبة , وابي امامة , وابي ايوب , وتمام بن عباس , وعبد الله بن حنظلة , وام سلمة , وواثلة بن الاسقع , وابي موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلَاهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ، وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّمَا صَحَّ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل فَزَعَمَ أَنَّ حَدِيثَ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ , وَعَلِيٍّ , وَعَائِشَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَحُذَيْفَةَ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , وَأَنَسٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَابْنِ عُمَرَ , وَأُمِّ حَبِيبَةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَتَمَّامِ بْنِ عَبَّاسٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ , وَأُمِّ سَلَمَةَ , وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ , وَأَبِي مُوسَى.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بروایت ابوسلمہ، ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی الله عنہما کی مروی دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، محمد بن اسماعیل بخاری کا خیال ہے کہ ابوسلمہ کی زید بن خالد رضی الله عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے ۲؎، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، علی، عائشہ، ابن عباس، حذیفہ، زید بن خالد، انس، عبداللہ بن عمرو، ابن عمر، ام حبیبہ، ابوامامہ، ابوایوب، تمام بن عباس، عبداللہ بن حنظلہ، ام سلمہ، واثلہ بن الاسقع اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: مسواک واجب نہ کرنے کی مصلحت امت سے مشقت و حرج کو دور رکھنا ہے، اس سے صرف مسواک کے وجوب کی نفی ہوتی ہے، رہا مسواک کا مسنون ہونا تو وہ علی حالہ باقی ہے۔
۲؎: امام بخاری نے اس طریق کو دو وجہوں سے راجح قرار دیا ہے: ایک تو یہ کہ اس سے ایک واقعہ وابستہ ہے اور وہ ابوسلمہ کا یہ کہنا ہے کہ زید بن خالد مسواک اپنے کان پر اسی طرح رکھے رہتے تھے جیسے کاتب قلم اپنے کان پر رکھے رہتا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم کی متابعت کی ہے جس کی تخریج امام احمد نے کی ہے۔