ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ظہر میں تم لوگوں سے زیادہ جلدی کرتے تھے اور تم لوگ عصر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ جلدی کرتے ہو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے اس روایت سے عصر دیر سے پڑھنے کے استحباب پر استدلال کیا ہے، جب کہ اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے عصر کی تاخیر کے استحباب پر استدلال کیا جائے، اس میں صرف اتنی بات ہے کہ ام سلمہ رضی الله عنہا کے جو لوگ مخاطب تھے وہ عصر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بھی زیادہ جلدی کرتے تھے، تو ان سے ام سلمہ نے یہ حدیث بیان فرمائی، اس میں اس بات پر قطعاً دلالت نہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عصر دیر سے پڑھتے تھے کہ عصر کی تاخیر پراس سے استدلال کیا جائے، علامہ عبدالحئی لکھنوی ”التعليق الممجد“ میں لکھتے ہیں «هذا الحديث إنما يدل على أن التعجيل في الظهر أشد من التعجيل في العصر لا على استحباب التأخير» بلاشبہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز ظہر میں (اس کا وقت ہوتے ہی) جلدی کرنا، نماز عصر میں جلدی کرنے سے بھی زیادہ سخت حکم رکھتا ہے، نہ کہ تاخیر سے نماز ادا کرنے کے مستحب ہونے پر۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6195 / التحقيق الثانى)
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن حكيم بن جبير، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: " ما رايت احدا كان اشد تعجيلا للظهر من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا من ابي بكر , ولا من عمر ". قال: وفي الباب عن جابر بن عبد الله , وخباب , وابي برزة , وابن مسعود , وزيد بن ثابت , وانس , وجابر بن سمرة. قال ابو عيسى: حديث عائشة حسن، وهو الذي اختاره اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، قال علي بن المديني: قال يحيى بن سعيد: وقد تكلم شعبة في حكيم بن جبير من اجل حديثه الذي روى، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " من سال الناس وله ما يغنيه " , قال يحيى: وروى له سفيان , وزائدة، ولم ير يحيى بحديثه باسا، قال محمد: وقد روي عن حكيم بن جبير، عن سعيد بن جبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم في تعجيل الظهر.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ تَعْجِيلًا لِلظُّهْرِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا مِنْ أَبِي بَكْرٍ , وَلَا مِنْ عُمَرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , وَخَبَّابٍ , وَأَبِي بَرْزَةَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَأَنَسٍ , وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ مِنْ أَجْلِ حَدِيثِهِ الَّذِي رَوَى، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ " , قَالَ يَحْيَى: وَرَوَى لَهُ سُفْيَانُ , وَزَائِدَةُ، وَلَمْ يَرَ يَحْيَى بِحَدِيثِهِ بَأْسًا، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ الظُّهْرِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ظہر کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر جلدی کرنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا، اور نہ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما سے بڑھ کر جلدی کرنے والا کسی کو دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابر بن عبداللہ، خباب، ابوبرزہ، ابن مسعود، زید بن ثابت، انس اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں اور عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے، ۲- اور اسی کو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں اہل علم نے اختیار کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر: مسند احمد (6/135، 216)، (تحفة الأشراف: 15934) (ضعیف الإسناد) (سند کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کے راوی ”حکیم بن جبیر“ ضعیف ہیں، لیکن دوسری احادیث جیسا کہ مولف نے ذکر کیا ہے سے یہ حدیث ثابت ہے۔)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف حكيم بن جبير (د 1626) ضعیف والحديث والأتي (الأصل: 161) يغني عنه .