(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان , عن محمد بن عمرو , حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: جاء ماعز الاسلمي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: إنه قد زنى فاعرض عنه , ثم جاء من شقه الآخر , فقال: يا رسول الله , إنه قد زنى، فاعرض عنه , ثم جاء من شقه الآخر , فقال: يا رسول الله , إنه قد زنى , فامر به في الرابعة فاخرج إلى الحرة , فرجم بالحجارة , فلما وجد مس الحجارة فر يشتد , حتى مر برجل معه لحي جمل فضربه به , وضربه الناس حتى مات , فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم , انه فر حين وجد مس الحجارة ومس الموت , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هلا تركتموه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , وقد روي من غير وجه , عن ابي هريرة , وروي هذا الحديث عن الزهري , عن ابي سلمة , عن جابر بن عبد الله , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ مَاعِزٌ الْأَسْلَمِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ زَنَى فَأَعْرَضَ عَنْهُ , ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الْآخَرِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ , ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الْآخَرِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ قَدْ زَنَى , فَأَمَرَ بِهِ فِي الرَّابِعَةِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْحَرَّةِ , فَرُجِمَ بِالْحِجَارَةِ , فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَّ يَشْتَدُّ , حَتَّى مَرَّ بِرَجُلٍ مَعَهُ لَحْيُ جَمَلٍ فَضَرَبَهُ بِهِ , وَضَرَبَهُ النَّاسُ حَتَّى مَاتَ , فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ فَرَّ حِينَ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اعتراف کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے، آپ نے پھر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے، پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پر آپ نے رجم کا حکم دے دیا، چنانچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجم کیا گیا، جب انہیں پتھر کی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے، حتیٰ کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو اسی سے مارا اور لوگوں نے بھی مارا یہاں تک کہ وہ مر گئے، پھر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ جب پتھر اور موت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑ دیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے، یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، انہوں نے اسے بطریق: «عن أبي سلمة عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے (جو آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحدود 22 (6815)، والأحکام 19 (7167)، صحیح مسلم/الحدود 5 (16)، سنن ابن ماجہ/الحدود 9 (2554)، (تحفة الأشراف: 15061)، و مسند احمد (2/286-287، 450، 453) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: «هلا تركتموه لعله أن يتوب فيتوب الله عليه» یعنی ”اسے تم لوگوں نے کیوں نہیں چھوڑ دیا، ہو سکتا ہے وہ اپنے اقرار سے پھر جاتا اور توبہ کرتا، پھر اللہ اس کی توبہ قبول کرتا“(اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے)۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا ابو عوانة، عن سماك بن حرب , عن سعيد بن جبير , عن ابن عباس , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لماعز بن مالك: " احق ما بلغني عنك؟ " قال: وما بلغك عني , قال: " بلغني انك وقعت على جارية آل فلان " , قال: نعم , فشهد اربع شهادات , فامر به فرجم. قال: وفي الباب , عن السائب بن يزيد. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن , وروى شعبة، هذا الحديث , عن سماك بن حرب , عن سعيد بن جبير مرسلا , ولم يذكر فيه عن ابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ: " أَحَقٌّ مَا بَلَغَنِي عَنْكَ؟ " قَالَ: وَمَا بَلَغَكَ عَنِّي , قَالَ: " بَلَغَنِي أَنَّكَ وَقَعْتَ عَلَى جَارِيَةِ آلِ فُلَانٍ " , قَالَ: نَعَمْ , فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ , فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَرَوَى شُعْبَةُ، هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلًا , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی الله عنہ سے فرمایا: ”تمہارے بارے میں جو مجھے خبر ملی ہے کیا وہ صحیح ہے؟“ ماعز رضی الله عنہ نے کہا: میرے بارے میں آپ کو کیا خبر ملی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے فلاں قبیلے کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں، پھر انہوں نے چار مرتبہ اقرار کیا، تو آپ نے حکم دیا، تو انہیں رجم کر دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو شعبہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کیا ہے، انہوں نے اس سند میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے، ۳- اس باب میں سائب بن یزید سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 5 (1693)، سنن ابی داود/ الحدود 24 (4425)، (تحفة الأشراف: 5519)، و مسند احمد (1/245، 314، 328) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مجرم اگر اپنے گناہ کا خود اقرار کر رہا ہو تو اس کے سامنے ایسی باتیں رکھنا جن کی وجہ سے اس پر حد واجب نہ ہو۔
(مرفوع) حدثنا بذلك الحسن بن علي الخلال , حدثنا عبد الرزاق , انبانا معمر , عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله , ان رجلا من اسلم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاعترف بالزنا , فاعرض عنه , ثم اعترف , فاعرض عنه , حتى شهد على نفسه اربع شهادات , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ابك جنون؟ " , قال: لا , قال: " احصنت " , قال: نعم , قال: فامر به , فرجم بالمصلى , فلما اذلقته الحجارة , فر فادرك فرجم حتى مات , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم " خيرا " , ولم يصل عليه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم: ان المعترف بالزنا إذا اقر على نفسه اربع مرات , اقيم عليه الحد , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم: إذا اقر على نفسه مرة , اقيم عليه الحد , وهو قول مالك بن انس , والشافعي , وحجة من قال هذا القول , حديث ابي هريرة , وزيد بن خالد , ان رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال احدهما: يا رسول الله , إن ابني زنى بامراة , هذا الحديث بطوله , وقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اغد يا انيس على امراة هذا , فإن اعترفت فارجمها " , ولم يقل فإن اعترفت اربع مرات.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا , فَأَعْرَضَ عَنْهُ , ثُمَّ اعْتَرَفَ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ , حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبِكَ جُنُونٌ؟ " , قَالَ: لَا , قَالَ: " أَحْصَنْتَ " , قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ , فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى , فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ , فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " خَيْرًا " , وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْمُعْتَرِفَ بِالزِّنَا إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ , أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ مَرَّةً , أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ , وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ , حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ ابْنِي زَنَى بِامْرَأَةِ , هَذَا الْحَدِيثُ بِطُولِهِ , وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا , فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا " , وَلَمْ يَقُلْ فَإِنِ اعْتَرَفَتْ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پاگل ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں: پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کر دیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ زنا کا اقرار کرنے والا جب اپنے اوپر چار مرتبہ گواہی دے تو اس پر حد قائم کی جائے گی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک مرتبہ بھی کوئی زنا کا اقرار کر لے گا تو اس پر حد قائم کر دی جائے گی، یہ مالک بن انس اور شافعی کا قول ہے، اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ رضی الله عنہ اور زید بن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنا قضیہ لے گئے، ایک نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا، یہ ایک لمبی حدیث ہے، (آخر میں ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انیس! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو“، آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ ”جب چار مرتبہ اقرار کرے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھر اسے رجم کیا گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: «أتصلي عليها وقد زنت؟» کیا اس زانیہ عورت کی نماز جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تو وہ ان سب کے لیے کافی ہو گی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئیے: كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم ۱۴۳۵۔
۲؎: اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی و ذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہو بصورت دیگر حد جاری کرنے کے لیے صرف ایک اقرار کافی ہے، پوری حدیث «باب الرجم علی الثیب» کے تحت آگے آ رہی ہے۔