(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , اخبرنا إسماعيل بن جعفر , حدثنا جعفر بن محمد , عن ابيه , " ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى باليمين مع الشاهد الواحد " , قال: وقضى بها علي فيكم. قال ابو عيسى: وهذا اصح , وهكذا روى سفيان الثوري , عن جعفر بن محمد , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا , وروى عبد العزيز بن ابي سلمة , ويحيى بن سليم , هذا الحديث عن جعفر بن محمد , عن ابيه , عن علي , عن النبي صلى الله عليه وسلم , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , راوا ان اليمين مع الشاهد الواحد جائز , في الحقوق والاموال , وهو قول: مالك بن انس , والشافعي , واحمد , وإسحاق , وقالوا: لا يقضى باليمين مع الشاهد الواحد , إلا في الحقوق والاموال , ولم ير بعض اهل العلم من اهل الكوفة , وغيرهم , ان يقضى باليمين مع الشاهد الواحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ " , قَالَ: وَقَضَى بِهَا عَلِيٌّ فِيكُمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ , وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا , وَرَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ , وَيَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ , هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَلِيٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , رَأَوْا أَنَّ الْيَمِينَ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ جَائِزٌ , فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَقَالُوا: لَا يُقْضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ , إِلَّا فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ , وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , وَغَيْرِهِمْ , أَنْ يُقْضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ.
ابو جعفر صادق سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا، راوی کہتے ہیں: اور علی نے بھی اسی سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، ۲- اسی طرح سفیان ثوری نے بھی بطریق: «عن جعفر بن محمد عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے۔ اور عبدالعزیز بن ابوسلمہ اور یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کو بطریق: «عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم»(مرفوعاً) روایت کیا ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ حقوق اور اموال کے سلسلے میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کھلانا جائز ہے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے صرف حقوق اور اموال کے سلسلے ہی میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ۴- اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 19326) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: باب کی یہ احادیث اہل کوفہ کے خلاف حجت ہیں، ان کا استدلال «وأشهدوا ذوي عدل منكم إذا استشهدوا شهدين من رجالكم» سے استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل نہیں۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔ ربیعہ کہتے ہیں: مجھے سعد بن عبادہ کے بیٹے نے خبر دی کہ ہم نے سعد رضی الله عنہ کی کتاب میں لکھا پایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی، جابر، ابن عباس اور سرق رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کہ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا“ حسن غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو تو دوسرے گواہ کے بدلے مدعی سے قسم لے کر قاضی اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا، جمہور کا یہی مذہب ہے کہ مالی معاملات میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ درست ہے۔