(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن منيع، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال قتيبة: يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تناجشوا ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا النجش. قال ابو عيسى: والنجش ان ياتي الرجل الذي يفصل السلعة إلى صاحب السلعة، فيستام باكثر مما تسوى وذلك عندما يحضره المشتري، يريد ان يغتر المشتري به، وليس من رايه الشراء، إنما يريد ان يخدع المشتري بما يستام، وهذا ضرب من الخديعة، قال الشافعي: وإن نجش رجل فالناجش آثم فيما يصنع، والبيع جائز لان البائع غير الناجش.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَنَاجَشُوا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا النَّجْشَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالنَّجْشُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الَّذِي يَفْصِلُ السِّلْعَةَ إِلَى صَاحِبِ السِّلْعَةِ، فَيَسْتَامُ بِأَكْثَرَ مِمَّا تَسْوَى وَذَلِكَ عِنْدَمَا يَحْضُرُهُ الْمُشْتَرِي، يُرِيدُ أَنْ يَغْتَرَّ الْمُشْتَرِي بِهِ، وَلَيْسَ مِنْ رَأْيِهِ الشِّرَاءُ، إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَخْدَعَ الْمُشْتَرِيَ بِمَا يَسْتَامُ، وَهَذَا ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ نَجَشَ رَجَلٌ فَالنَّاجِشُ آثِمٌ فِيمَا يَصْنَعُ، وَالْبَيْعُ جَائِزٌ لِأَنَّ الْبَائِعَ غَيْرُ النَّاجِشِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نجش نہ کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے «نجش» کو ناجائز کہا ہے، ۴- «نجش» یہ ہے کہ ایسا آدمی جو سامان کے اچھے برے کی تمیز رکھتا ہو سامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہو جب خریدار اس کے پاس موجود ہو، مقصد صرف یہ ہو کہ اس سے خریدار دھوکہ کھا جائے اور وہ (دام بڑھا چڑھا کر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتا ہو بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھا جائے۔ یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے، ۵- شافعی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی «نجش» کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی «نجش» کرنے والا گنہگار ہو گا اور بیع جائز ہو گی، اس لیے کہ بیچنے والا تو «نجش» نہیں کر رہا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 58 (2140)، و64 (2150)، و70 (2160)، والشروط 8 (2723)، صحیح مسلم/النکاح 6 (1413/52)، سنن ابی داود/ البیوع 46 (3438)، سنن النسائی/البیوع 16 (4510)، سنن ابن ماجہ/التجارات 13 (2174)، (تحفة الأشراف: 13123)، و موطا امام مالک/البیوع 45 (96)، و مسند احمد (2/238، 474، 487)، وانظر ما تقدم بأرقام: 1134، 1190، 1222) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، وقتيبة، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال قتيبة: يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، وقال احمد: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يبيع الرجل على بيع اخيه ولا يخطب على خطبة اخيه". قال: وفي الباب، عن سمرة، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، قال مالك بن انس: إنما معنى كراهية ان يخطب الرجل على خطبة اخيه: إذا خطب الرجل المراة فرضيت به فليس لاحد ان يخطب على خطبته، وقال الشافعي: معنى هذا الحديث لا يخطب الرجل على خطبة اخيه: هذا عندنا إذا خطب الرجل المراة فرضيت به وركنت إليه، فليس لاحد ان يخطب على خطبته، فاما قبل ان يعلم رضاها او ركونها إليه فلا باس ان يخطبها، والحجة في ذلك حديث فاطمة بنت قيس، حيث جاءت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت له، ان ابا جهم بن حذيفة، ومعاوية بن ابي سفيان خطباها، فقال: اما ابو جهم فرجل لا يرفع عصاه عن النساء، واما معاوية فصعلوك لا مال له، ولكن انكحي اسامة فمعنى هذا الحديث عندنا والله اعلم ان فاطمة لم تخبره برضاها بواحد منهما، ولو اخبرته لم يشر عليها بغير الذي ذكرت.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَحْمَدُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِنَّمَا مَعْنَى كَرَاهِيَةِ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ: إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ: هَذَا عِنْدَنَا إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ وَرَكَنَتْ إِلَيْهِ، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ، فَأَمَّا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ رِضَاهَا أَوْ رُكُونَهَا إِلَيْهِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَخْطُبَهَا، وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ حَدِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، حَيْثُ جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ لَهُ، أَنَّ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ، وَمُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ خَطَبَاهَا، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ لَا يَرْفَعُ عَصَاهُ عَنِ النِّسَاءِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ فَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّ فَاطِمَةَ لَمْ تُخْبِرْهُ بِرِضَاهَا بِوَاحِدٍ مِنْهُمَا، وَلَوْ أَخْبَرَتْهُ لَمْ يُشِرْ عَلَيْهَا بِغَيْرِ الَّذِي ذَكَرَتْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سمرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- مالک بن انس کہتے ہیں: آدمی کے اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے کسی عورت کو پیغام دیا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہو گئی ہو، تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے، ۴- شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب آدمی نے کسی عورت کو پیغام بھیجا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہو گئی ہو اور اس کی طرف مائل ہو گئی ہو تو ایسی صورت میں کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ اس کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے، لیکن اس کی رضا مندی اور اس کا میلان معلوم ہونے سے پہلے اگر وہ اسے پیغام دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی دلیل فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کی یہ حدیث ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر ذکر کیا کہ ابوجہم بن حذیفہ اور معاویہ بن ابی سفیان نے انہیں نکاح کا پیغام دیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”ابوجہم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا ڈنڈا عورتوں سے نہیں اٹھاتے (یعنی عورتوں کو بہت مارتے ہیں) رہے معاویہ تو وہ غریب آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو“۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کا مفہوم (اور اللہ بہتر جانتا ہے) یہ ہے کہ فاطمہ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا تھا اور اگر وہ اس کا اظہار کر دیتیں تو اسے چھوڑ کر آپ انہیں اسامہ رضی الله عنہ سے نکاح کا مشورہ نہ دیتے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابن المبارك، اخبرنا سليمان التيمي، عن ابي عثمان، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه: " نهى عن تلقي البيوع "، قال: وفي الباب، عن علي، وابن عباس، وابي هريرة، وابي سعيد، وابن عمر، ورجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ: " نَهَى عَنْ تَلَقِّي الْبُيُوعِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، ابن عمر، اور ایک اور صحابی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا سلمة بن شبيب، حدثنا عبد الله بن جعفر الرقي، حدثنا عبيد الله بن عمرو، عن ايوب، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى ان يتلقى الجلب، فإن تلقاه إنسان فابتاعه فصاحب السلعة فيها بالخيار، إذا ورد السوق ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، من حديث ايوب، وحديث ابن مسعود، حديث حسن صحيح، وقد كره قوم من اهل العلم تلقي البيوع، وهو ضرب من الخديعة، وهو قول الشافعي وغيره، من اصحابنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى أَنْ يُتَلَقَّى الْجَلَبُ، فَإِنْ تَلَقَّاهُ إِنْسَانٌ فَابْتَاعَهُ فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ فِيهَا بِالْخِيَارِ، إِذَا وَرَدَ السُّوقَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ، وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَلَقِّي الْبُيُوعِ، وَهُوَ ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ، مِنْ أَصْحَابِنَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے مل کر مال خریدنے کو ناجائز کہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 45 (3437)، (تحفة الأشراف: 14448) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/البیوع 5 (1519)، سنن النسائی/البیوع 18 (4505)، سنن ابن ماجہ/التجارات 16 (2179)، مسند احمد (2/284، 403، 488) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جا ملے تاکہ بھاؤ کے متعلق بیان کر کے اس سے سامان سستے داموں خرید لے، ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے، چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازار کی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہو سکتا ہے، اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن منيع، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وقال قتيبة: يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يبيع حاضر لباد ". قال: وفي الباب، عن طلحة، وجابر، وانس، وابن عباس، وحكيم بن ابي يزيد، عن ابيه، وعمرو بن عوف المزني جد كثير بن عبد الله، ورجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ طَلْحَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزْنِيِّ جَدِّ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ۱؎(بلکہ دیہاتی کو خود بیچنے دے“)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں طلحہ، جابر، انس، ابن عباس، ابویزید کثیر بن عبداللہ کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور ایک اور صحابی رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 58 (2140)، صحیح مسلم/النکاح 6 (1413)، والبیوع 6 (1520)، سنن النسائی/النکاح 20 (3241)، سنن ابن ماجہ/التجارات 15 (2175) (تحفة الأشراف: 13123)، مسند احمد (2/238) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 64 (2150)، و70 (2160)، و71 (2162)، والشروط 8 (2723)، و 11 (2727)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، سنن النسائی/البیوع 16 (4496)، و19 (4506)، و21 (4510)، مسند احمد (2/274، 394، 487) من غیر ہذا الوجہ (وانظر أیضا حدیث رقم 1134 و 1190) و1222، و1304)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا دلال نہ بنے، کیونکہ ایسا کرنے میں بستی والوں کا خسارہ ہے، اگر باہر سے آنے والا خود بیچتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت میں اسے بیچ کر اپنے گھر چلا جائے گا اس سے خریداروں کو فائدہ ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، واحمد بن منيع، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يبيع حاضر لباد دعوا الناس يرزق الله بعضهم من بعض ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وحديث جابر في هذا هو حديث حسن صحيح ايضا، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، كرهوا ان يبيع حاضر لباد، ورخص بعضهم في ان يشتري حاضر لباد، وقال الشافعي: يكره ان يبيع حاضر لباد، وإن باع فالبيع جائز.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي أَنْ يَشْتَرِيَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: يُكْرَهُ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَإِنْ بَاعَ فَالْبَيْعُ جَائِزٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے، تم لوگوں کو (ان کا سامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا سامان بیچے، ۴- اور بعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔ ۵- شافعی کہتے ہیں کہ شہری کا دیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اور اگر وہ بیچ دے تو بیع جائز ہو گی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 6 (1522)، سنن ابن ماجہ/التجارات 15 (2177)، (تحفة الأشراف: 2764)، مسند احمد (3/307) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ البیوع 47 (2442)، سنن النسائی/البیوع 17 (4500)، مسند احمد 3/312، 386، 392) من غیر ہذا الوجہ۔»
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا يخطب بعضكم على خطبة بعض ". قال: وفي الباب، عن ابي هريرة، وسمرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح. وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " لا يسوم الرجل على سوم اخيه "، ومعنى البيع في هذا الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم عند بعض اهل العلم هو السوم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا يَخْطُبْ بَعْضُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ بَعْضٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَسُومُ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ "، وَمَعْنَى الْبَيْعِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ هُوَ السَّوْمُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور سمرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ کرے۔ ۴- اور بعض اہل علم کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اس حدیث میں بیع سے مراد بھاؤ تاؤ اور مول تول ہے۔
وضاحت: ۱؎: دوسرے کی بیع پر بیع کی صورت یہ ہے، بیع ہو جانے کے بعد مدت خیار کے اندر کوئی آ کر یہ کہے کہ تو یہ بیع فسخ کر دے تو میں تجھ کو اس سے عمدہ چیز اس سے کم قیمت پر دیتا ہوں کہ اس طرح کہنا جائز نہیں۔
(مرفوع) حدثنا عبد الجبار بن العلاء العطار، وسعيد بن عبد الرحمن، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقاطعوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، ولا تحاسدوا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: وفي الباب عن ابي بكر الصديق، والزبير بن العوام، وابن مسعود، وابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ الْعَطَّارُ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَاطَعُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپس میں قطع تعلق نہ کرو، ایک دوسرے سے بےرخی نہ اختیار کرو، باہم دشمنی و بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے سلام کلام بند رکھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، زبیر بن عوام، ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اسلام نے مسلم معاشرہ کی اصلاح اور اس کی بہتری کا خاص خیال رکھا ہے، اس حدیث میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا تعلق بھی اصلاح معاشرہ اور سماج کی سدھار سے ہے، صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، ہاہمی بغض و عناد اور دشمنی سے باز رہنے کو کہا گیا ہے، حسد جو معاشرہ کے لیے ایسی مہلک بیماری ہے جس سے نیکیاں جل کر راکھ ہو جاتی ہیں، اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔