(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا الكوفي بن فضيل، عن يحيى بن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا " او " يختارا "، قال: فكان ابن عمر إذا ابتاع بيعا وهو قاعد، قام ليجب له البيع. قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي برزة، وحكيم بن حزام، وعبد الله بن عباس، وعبد الله بن عمرو، وسمرة، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقالوا: الفرقة بالابدان لا بالكلام، وقد قال بعض اهل العلم: معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " ما لم يتفرقا يعني الفرقة بالكلام "، والقول الاول اصح لان ابن عمر هو روى عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو اعلم بمعنى ما روى. وروي عنه انه كان إذا اراد ان يوجب البيع مشى ليجب له.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا الْكوِفِيُّ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا " أَوْ " يَخْتَارَا "، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا ابْتَاعَ بَيْعًا وَهُوَ قَاعِدٌ، قَامَ لِيَجِبَ لَهُ الْبَيْعُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَحَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا: الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ لَا بِالْكَلَامِ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا يَعْنِي الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ "، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ لِأَنَّ ابْنَ عُمَرَ هُوَ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوجِبَ الْبَيْعَ مَشَى لِيَجِبَ لَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں“۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ، حکیم بن حزام، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو، سمرہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تفرق سے مراد جسمانی جدائی ہے نہ کہ قولی جدائی، یعنی مجلس سے جدائی مراد ہے گفتگو کا موضوع بدلنا مراد نہیں، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «مالم يتفرقا» سے مراد قولی جدائی ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ہی اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور وہ اپنی روایت کردہ حدیث کا معنی زیادہ جانتے ہیں اور ان سے مروی ہے کہ جب وہ بیع واجب (پکی) کرنے کا ارادہ کرتے تو (مجلس سے اٹھ کر) چل دیتے تاکہ بیع واجب ہو جائے، ۵- ابوبرزہ رضی الله عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 42 (2107)، صحیح مسلم/البیوع 10 (1531)، سنن النسائی/البیوع 9 (4478)، (تحفة الأشراف: 8522) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 43 (2109)، و 44 (2111)، و45 (2112)، و46 (2113)، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ البیوع 53 (3454)، سنن النسائی/البیوع 9 (4470-4477)، سنن ابن ماجہ/التجارات 17 (2181)، موطا امام مالک/البیوع 38 (79)، مسند احمد (2/4، 9، 52، 54، 73، 119، 135) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طور پر جدا ہو گئے تو بیع پکی ہو جائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔
۲؎: اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا، یعنی خیار کی شرط کر لی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن شعبة، عن قتادة، عن صالح ابي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما "، هذا حديث صحيح وهكذا روي، عن ابي برزة الاسلمي وهكذا روي عن ابي برزة الاسلمي، ان رجلين اختصما إليه في فرس بعد ما تبايعا، وكانوا في سفينة، فقال: لا اراكما افترقتما، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا ". وقد ذهب بعض اهل العلم من اهل الكوفة وغيرهم، إلى ان الفرقة بالكلام، وهو قول: سفيان الثوري. وهكذا روي عن مالك بن انس، وروي عن ابن المبارك، انه قال: كيف ارد هذا؟ والحديث فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم صحيح وقوى هذا المذهب، ومعنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " إلا بيع الخيار " معناه: ان يخير البائع المشتري بعد إيجاب البيع، فإذا خيره فاختار البيع، فليس له خيار بعد ذلك في فسخ البيع، وإن لم يتفرقا هكذا فسره الشافعي، وغيره، ومما يقوي قول: من يقول الفرقة بالابدان، لا بالكلام حديث عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا رُوِيَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا، وَكَانُوا فِي سَفِينَةٍ، فَقَالَ: لَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ". وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، إِلَى أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: كَيْفَ أَرُدُّ هَذَا؟ وَالْحَدِيثُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ وَقَوَّى هَذَا الْمَذْهَبَ، وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ " مَعْنَاهُ: أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ، فَإِذَا خَيَّرَهُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ، فَلَيْسَ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِكَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ، وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا هَكَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ، وَغَيْرُهُ، وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ: مَنْ يَقُولُ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ، لَا بِالْكَلَامِ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے، وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ ابوبرزہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہوئے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بائع اور مشتری کو جب تک (مجلس سے) جدا نہ ہوں اختیار ہے“، ۳- اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہو گی، یہی سفیان ثوری کا قول ہے، اور اسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے، ۴- اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کر دوں؟ جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد حدیث صحیح ہے، ۵- اور انہوں نے اس کو قوی کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إلا بيع الخيار» کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دیدے، پھر جب مشتری بیع کو اختیار کر لے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، اگرچہ وہ دونوں جدا نہ ہوئے ہوں۔ اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے، ۶- اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں (آگے ہی آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 19 (2079)، و22 (2082)، و42 (2108)، و 44 (2110)، و 46 (2114)، صحیح مسلم/البیوع 1 (1532)، سنن ابی داود/ البیوع 53 (3459)، سنن النسائی/البیوع 5 (4462)، (تحفة الأشراف: 3427) و مسند احمد (3/402، 403، 434) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جدا نہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھر ادھر چلے جانا ہے، خود راوی حدیث ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی یہی تفسیر مروی ہے، بعض نے بات چیت ختم کر دینا مراد لیا ہے جو ظاہر کے خلاف ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1281)، أحاديث البيوع
(مرفوع) اخبرنا بذلك قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن عجلان، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا إلا ان تكون صفقة خيار، ولا يحل له ان يفارق صاحبه خشية ان يستقيله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ومعنى هذا ان يفارقه بعد البيع خشية ان يستقيله، ولو كانت الفرقة بالكلام، ولم يكن له خيار بعد البيع لم يكن لهذا الحديث معنى حيث قال صلى الله عليه وسلم: " ولا يحل له ان يفارقه خشية ان يستقيله ".(مرفوع) أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى هَذَا أَنْ يُفَارِقَهُ بَعْدَ الْبَيْعِ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ، وَلَوْ كَانَتِ الْفُرْقَةُ بِالْكَلَامِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ الْبَيْعِ لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں ان کو اختیار ہے الا یہ کہ بیع خیار ہو (تب جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے)، اور بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے ساتھی (مشتری) سے اس ڈر سے جدا ہو جائے کہ وہ بیع کو فسخ کر دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور اس کا معنی یہی ہے کہ بیع کے بعد وہ مشتری سے جدا ہو جائے اس ڈر سے کہ وہ اسے فسخ کر دے گا اور اگر جدائی صرف کلام سے ہو جاتی، اور بیع کے بعد مشتری کو اختیار نہ ہوتا تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہو گا جو کہ آپ نے فرمایا ہے: ”بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مشتری سے اس ڈر سے جدا ہو جائے کہ وہ اس کی بیع کو فسخ کر دے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 53 (3458)، (تحفة الأشراف: 8797)، و مسند احمد (2/183) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1311)، أحاديث البيوع