(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، اخبرنا حسين بن محمد، اخبرنا شيبان، عن يحيى بن ابي كثير، عن نافع، قال: انطلقت انا وابن عمر، إلى ابي سعيد فحدثنا، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال سمعته اذناي هاتان، يقول: " لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، والفضة بالفضة إلا مثلا بمثل، لا يشف بعضه على بعض، ولا تبيعوا منه غائبا بناجز ". قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي بكر، وعمر، وعثمان، وابي هريرة، وهشام بن عامر، والبراء، وزيد بن ارقم، وفضالة بن عبيد، وابي بكرة، وابن عمر، وابي الدرداء، وبلال، قال: وحديث ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الربا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إلا ما روي عن ابن عباس، انه كان لا يرى باسا ان يباع الذهب بالذهب متفاضلا، والفضة بالفضة متفاضلا، إذا كان يدا بيد، وقال: إنما الربا في النسيئة، وكذلك روي عن بعض اصحابه شيء من هذا، وقد روي عن ابن عباس، انه رجع عن قوله، حين حدثه ابو سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم والقول الاول اصح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وروي عن ابن المبارك، انه قال: ليس في الصرف اختلاف.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا شَيبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَر، إلى أبي سعيد فحدثنا، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ هَاتَانِ، يَقُولُ: " لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةَ بِالْفِضَّةِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، لَا يُشَفُّ بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهُ غَائِبًا بِنَاجِزٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، وَالْبَرَاءِ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَبِلَالٍ، قَالَ: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرِّبَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يُبَاعَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مُتَفَاضِلًا، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مُتَفَاضِلًا، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ، وقَالَ: إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ شَيْءٌ مِنْ هَذَا، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ، حِينَ حَدَّثَهُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: لَيْسَ فِي الصَّرْفِ اخْتِلَافٌ.
نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری رضی الله عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا): ”سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رباء کے سلسلہ میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، ابوہریرہ، ہشام بن عامر، براء، زید بن ارقم، فضالہ بن عبید، ابوبکرہ، ابن عمر، ابودرداء اور بلال رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- مگر وہ جو ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ وہ سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، جب کہ بیع نقدا نقد ہو، اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سود تو ادھار بیچنے میں ہے اور ایسا ہی کچھ ان کے بعض اصحاب سے بھی مروی ہے، ۵- اور ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ابو سعید خدری نے جب ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور ابن مبارک کہتے ہیں: صرف ۱؎ میں اختلاف نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا سفيان، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث، عن عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الذهب بالذهب مثلا بمثل، والفضة بالفضة مثلا بمثل، والتمر بالتمر مثلا بمثل، والبر بالبر مثلا بمثل، والملح بالملح مثلا بمثل، والشعير بالشعير مثلا بمثل، فمن زاد او ازداد، فقد اربى بيعوا الذهب بالفضة، كيف شئتم يدا بيد، وبيعوا البر بالتمر كيف شئتم يدا بيد، وبيعوا الشعير بالتمر، كيف شئتم يدا بيد ". قال: وفي الباب، عن ابي سعيد، وابي هريرة، وبلال، وانس. قال ابو عيسى: حديث عبادة حديث حسن صحيح، وقد روى بعضهم هذا الحديث، عن خالد بهذا الإسناد، وقال: بيعوا البر بالشعير، كيف شئتم يدا بيد، وروى بعضهم هذا الحديث، عن خالد، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث، عن عبادة، عن النبي صلى الله عليه وسلم الحديث وزاد فيه، قال خالد: قال ابو قلابة: " بيعوا البر بالشعير كيف شئتم. فذكر الحديث، والعمل على هذا عند اهل العلم، لا يرون ان يباع البر بالبر إلا مثلا بمثل، والشعير بالشعير إلا مثلا بمثل، فإذا اختلف الاصناف فلا باس، ان يباع متفاضلا إذا كان يدا بيد "، وهذا قول اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال الشافعي: والحجة في ذلك، قول النبي صلى الله عليه وسلم: " بيعوا الشعير بالبر كيف شئتم يدا بيد ". قال ابو عيسى: وقد كره قوم من اهل العلم ان تباع الحنطة بالشعير إلا مثلا بمثل، وهو قول: مالك بن انس، والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى بِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ، كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، وَبِيعُوا الْبُرَّ بِالتَّمْرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، وَبِيعُوا الشَّعِيرَ بِالتَّمْرِ، كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَبِلَالٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: بِيعُوا الْبُرُّ بِالشَّعِيرِ، كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ وَزَادَ فِيهِ، قَالَ خَالِدٌ: قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: " بِيعُوا الْبُرَّ بِالشَّعِيرِ كَيْفَ شِئْتُمْ. فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يَرَوْنَ أَنْ يُبَاعَ الْبُرُّ بِالْبُرِّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَ الْأَصْنَافُ فَلَا بَأْسَ، أَنْ يُبَاعَ مُتَفَاضِلًا إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ "، وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ، قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِيعُوا الشَّعِيرَ بِالْبُرِّ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ گیہوں کو جو سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ۳- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اور خالد نے ابوقلابہ سے اور ابوقلابہ نے ابوالاشعث سے اور ابوالاشعث نے عبادہ سے اور عبادہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے: خالد کہتے ہیں: ابوقلابہ نے کہا: گیہوں کو جو سے جیسے سے چاہو بیچو۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی، ۴- اس باب میں ابوسعید، ابوہریرہ، بلال اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے صرف برابر برابر ہی بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں اور جب اجناس مختلف ہو جائیں تو کمی، بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بیع نقداً نقد ہو۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: اس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ جو کو گیہوں سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ۶- اہل علم کی ایک جماعت نے جو سے بھی گیہوں کے بیچنے کو مکروہ سمجھا ہے، الا یہ کہ وزن میں مساوی ہوں، پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 15 (البیوع 36)، (1587)، سنن ابی داود/ البیوع 12 (3349، 3350)، سنن النسائی/البیوع 44 (4567)، (تحفة الأشراف: 5089)، مسند احمد (5/314، 320) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/43 (4564، 4565)، سنن ابن ماجہ/التجارات 48 (2254)، من غیر ہذا الوجہ۔»
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن مالك بن اوس بن الحدثان، انه قال: اقبلت اقول من يصطرف الدراهم، فقال طلحة بن عبيد الله وهو عند عمر بن الخطاب: ارنا ذهبك، ثم ائتنا إذا جاء خادمنا نعطك ورقك، فقال عمر: كلا والله لتعطينه ورقه، او لتردن إليه ذهبه، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الورق بالذهب ربا إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، ومعنى قوله: إلا هاء وهاء يقول يدا بيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْتُ أَقُولُ مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ، فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَرِنَا ذَهَبَكَ، ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَاءَ خَادِمُنَا نُعْطِكَ وَرِقَكَ، فَقَالَ عُمَرُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ، أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ يَقُولُ يَدًا بِيَدٍ.
مالک بن اوس بن حدثان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں (بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا: درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا؟ تو طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ نے کہا اور وہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے پاس تھے: ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، اور جب ہمارا خادم آ جائے تو ہمارے پاس آ جاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔ (یہ سن کر) عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو ۱؎، گیہوں کے بدلے گیہوں لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو، جو کے بدلے جو لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو، اور کھجور کے بدلے کھجور لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ «إلاھاء وھاء» کا مفہوم ہے نقدا نقد۔
وضاحت: ۱؎: چاندی کے بدلے سونا، اور سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے بیچنا جائز تو ہے، مگر نقدا نقد اس حدیث کا یہی مطلب ہے، نہ یہ کہ سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے نہیں بیچ سکتے، دیکھئیے حدیث (رقم ۱۲۴۰)۔