(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ". وفي الباب: عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقد فسر بعض اهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة، ان يقول: ابيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على احد البيعين، فإذا فارقه على احدهما فلا باس، إذا كانت العقدة على احد منهما، قال الشافعي: ومن معنى نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ان يقول: ابيعك داري هذه بكذا، على ان تبيعني غلامك بكذا، فإذا وجب لي غلامك، وجبت لك داري، وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولا يدري كل واحد منهما، على ما وقعت عليه صفقته.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، أَنْ يَقُولَ: أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ، وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَى أَحَدِ الْبَيْعَيْنِ، فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَى أَحَدِهِمَا فَلَا بَأْسَ، إِذَا كَانَتِ الْعُقْدَةُ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمَا، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِنْ مَعْنَى نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ أَنْ يَقُولَ: أَبِيعَكَ دَارِي هَذِهِ بِكَذَا، عَلَى أَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَكَ بِكَذَا، فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُكَ، وَجَبَتْ لَكَ دَارِي، وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، وَلَا يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، عَلَى مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہو گئی ہو، ۵- شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ۲؎ اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15050) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/البیوع 73 (4636)، موطا امام مالک/البیوع 33 (72) (بلاغا) مسند احمد (2/432، 475، 503) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی نے دو قول ذکر کئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینار کے عوض گیہوں خرید لے اور جب ایک ماہ گزر جائے تو جا کر اس سے گیہوں کا مطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دو مہینے کے وعدے پر دو بوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہوئی۔
۲؎: اور یہی جہالت بیع کے جائز نہ ہونے کی وجہ ہے گو ظاہر میں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2868)، الإرواء (5 / 149)، أحاديث البيوع
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا ايوب، حدثنا عمرو بن شعيب، قال: حدثني ابي، عن ابيه، حتى ذكر عبد الله بن عمرو، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يحل سلف، وبيع ولا شرطان في بيع، ولا ربح ما لم يضمن، ولا بيع ما ليس عندك ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح. قال ابو عيسى: حديث حكيم بن حزام حديث حسن، قد روي عنه من غير وجه، روى ايوب السختياني، وابو بشر، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام. قال ابو عيسى: وروى هذا الحديث عوف، وهشام بن حسان، عن ابن سيرين، عن حكيم بن حزام، عن النبي صلى الله عليه وسلم وهذا حديث مرسل، إنما رواه ابن سيرين، عن ايوب السختياني، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ سَلَفٌ، وَبَيْعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، رَوَى أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، وَأَبُو بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَوْفٌ، وَهِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، إِنَّمَا رَوَاهُ ابْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے ۱؎، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں جائز ہیں ۲؎ اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جس کا وہ ضامن نہ ہو ۳؎ اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حکیم بن حزام کی حدیث حسن ہے (۱۲۳۲، ۱۲۳۳)، یہ ان سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔ اور ایوب سختیانی اور ابوبشر نے اسے یوسف بن ماہک سے اور یوسف نے حکیم بن حزام سے روایت کیا ہے۔ اور عوف اور ہشام بن حسان نے اس حدیث کو ابن سیرین سے اور ابن سیرین نے حکیم بن حزام سے اور حکیم بن حزام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث (روایت) مرسل (منقطع) ہے۔ اسے (اصلاً) ابن سیرین نے ایوب سختیانی سے اور ایوب نے یوسف بن ماہک سے اور یوسف بن ماہک نے حکیم بن حزام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ فروخت کنندہ، بائع کہے کہ میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ دس روپے میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ مجھے دس روپے قرض دے دو یا یوں کہے کہ میں تمہیں دس روپے قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم اپنا یہ سامان میرے ہاتھ سے بیچ دو۔
۲؎: اس کے متعلق ایک قول یہ ہے اس سے مراد ایک بیع میں دو فروختیں اور امام احمد کہتے ہیں اس کی شکل یہ ہے کہ بیچنے والا کہے میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ بیچ رہا ہوں اس شرط پر کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہو گی۔
۳؎: یعنی کسی سامان کا منافع حاصل کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ وہ اس کا مالک نہ ہو جائے اور اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لے۔