(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، قال: اخبرني ابو بكر بن ابي الجهم، قال: دخلت انا، وابو سلمة بن عبد الرحمن على فاطمة بنت قيس، فحدثتنا ان زوجها طلقها ثلاثا ولم يجعل لها سكنى ولا نفقة، قالت: ووضع لي عشرة اقفزة عند ابن عم له خمسة شعيرا وخمسة برا، قالت: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، قالت: فقال:" صدق"، قالت: فامرني ان اعتد في بيت ام شريك، ثم قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بيت ام شريك بيت يغشاه المهاجرون، ولكن اعتدي في بيت ابن ام مكتوم فعسى ان تلقي ثيابك ولا يراك، فإذا انقضت عدتك فجاء احد يخطبك فآذنيني"، فلما انقضت عدتي خطبني ابو جهم، ومعاوية، قالت: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال:" اما معاوية فرجل لا مال له، واما ابو جهم فرجل شديد على النساء"، قالت: فخطبني اسامة بن زيد فتزوجني، فبارك الله لي في اسامة. هذا حديث صحيح، وقد رواه سفيان الثوري، عن ابي بكر بن ابي الجهم نحو هذا الحديث، وزاد فيه، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" انكحي اسامة". حدثنا محمود، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي بكر بن ابي الجهم بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الْجَهْمِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، فَحَدَّثَتْنَا أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا وَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: وَوَضَعَ لِي عَشَرَةَ أَقْفِزَةٍ عِنْدَ ابْنِ عَمٍّ لَهُ خَمْسَةً شَعِيرًا وَخَمْسَةً بُرًّا، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَتْ: فَقَالَ:" صَدَقَ"، قَالَتْ: فَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَيْتَ أُمِّ شَرِيكٍ بَيْتٌ يَغْشَاهُ الْمُهَاجِرُونَ، وَلَكِنْ اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَعَسَى أَنْ تُلْقِي ثِيَابَكِ وَلَا يَرَاكِ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ فَجَاءَ أَحَدٌ يَخْطُبُكِ فَآذِنِينِي"، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي خَطَبَنِي أَبُو جَهْمٍ، وَمُعَاوِيَةُ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ شَدِيدٌ عَلَى النِّسَاءِ"، قَالَتْ: فَخَطَبَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَتَزَوَّجَنِي، فَبَارَكَ اللَّهُ لِي فِي أُسَامَةَ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَزَادَ فِيهِ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْكِحِي أُسَامَةَ". حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بِهَذَا.
ابوبکر بن ابی جہم کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن دونوں فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے پاس آئے انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی اور نہ ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا اور نہ کھانے پینے کا۔ اور انہوں نے میرے لیے دس بوری غلہ، پانچ بوری جو کے اور پانچ گیہوں کے اپنے چچا زاد بھائی کے پاس رکھ دیں، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”انہوں نے ٹھیک کیا، اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ام شریک کے گھر میں عدت گزاروں“، پھر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام شریک کے گھر مہاجرین آتے جاتے رہتے ہیں۔ تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو“۔ وہاں یہ بھی سہولت رہے گی کہ تم (سر وغیرہ سے) کپڑے اتارو گی تو تمہیں وہ نہیں دیکھ پائیں گے، پھر جب تمہاری عدت پوری ہو جائے اور کوئی تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میری عدت پوری ہو گئی تو ابوجہم اور معاویہ نے مجھے پیغام بھیجا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”معاویہ تو ایسے آدمی ہیں کہ ان کے پاس مال نہیں، اور ابوجہم عورتوں کے لیے سخت واقع ہوئے ہیں“۔ پھر مجھے اسامہ بن زید رضی الله عنہ نے پیغام بھیجا اور مجھ سے شادی کر لی۔ اللہ تعالیٰ نے اسامہ میں مجھے برکت عطا فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسے سفیان ثوری نے بھی ابوبکر بن ابی جہم سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسامہ سے نکاح کر لو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن النسائی/الطلاق 15 (3447)، و 72 (3581)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 10 (2035)، (تحفة الأشراف: 18037) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ الطلاق 39 (2284)، سنن النسائی/النکاح 8 (3224)، و21 (3246)، والطلاق 4 (2024)، و9 2032)، موطا امام مالک/الطلاق 23 (67)، مسند احمد (6/414، 415) سنن الدارمی/النکاح 7 (2223)، والطلاق 10 (2320) من غیر ہذا الوجہ وانظر ما یأتي عند المؤلف برقم: 1180»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء // 1804 // (6 / 209)، صحيح أبي داود (1976)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا جرير، عن مغيرة، عن الشعبي، قال: قالت فاطمة بنت قيس: طلقني زوجي ثلاثا، على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا سكنى لك، ولا نفقة ". قال مغيرة: فذكرته لإبراهيم، فقال: قال عمر: لا ندع كتاب الله، وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، لقول امراة لا ندري احفظت ام نسيت، وكان عمر يجعل لها السكنى، والنفقة. حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، انبانا حصين، وإسماعيل، ومجالد، قال هشيم، وحدثنا داود ايضا، عن الشعبي، قال: دخلت على فاطمة بنت قيس فسالتها، عن قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيها فقالت: طلقها زوجها البتة فخاصمته في السكنى، والنفقة، فلم يجعل لها النبي صلى الله عليه وسلم سكنى، ولا نفقة، وفي حديث داود قالت: وامرني ان اعتد في بيت ابن ام مكتوم. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهو قول: بعض اهل العلم: منهم الحسن البصري، وعطاء بن ابي رباح، والشعبي، وبه يقول: احمد، وإسحاق، وقالوا: ليس للمطلقة سكنى، ولا نفقة، إذا لم يملك زوجها الرجعة، وقال بعض اهل العلم: من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منهم، عمر، وعبد الله، إن المطلقة ثلاثا لها السكنى، والنفقة، وهو قول: سفيان الثوري، واهل الكوفة، وقال بعض اهل العلم: لها السكنى، ولا نفقة لها، وهو قول: مالك بن انس، والليث بن سعد، والشافعي، وقال الشافعي: إنما جعلنا لها السكنى بكتاب الله قال الله تعالى: لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا ان ياتين بفاحشة مبينة سورة الطلاق آية 1، قالوا: هو البذاء ان تبذو على اهلها، واعتل بان فاطمة بنت قيس، لم يجعل لها النبي صلى الله عليه وسلم، السكنى لما كانت تبذو على اهلها، قال الشافعي: ولا نفقة لها لحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، في قصة حديث فاطمة بنت قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا سُكْنَى لَكِ، وَلَا نَفَقَةَ ". قَالَ مُغِيرَةُ: فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ: لَا نَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ، وَكَانَ عُمَرُ يَجْعَلُ لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ، وَإِسْمَاعِيل، وَمُجَالِدٌ، قَالَ هُشَيْمٌ، وَحَدَّثَنَا دَاوُدُ أَيْضًا، عن الشَّعْبِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَسَأَلْتُهَا، عَنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهَا فَقَالَتْ: طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ فَخَاصَمَتْهُ فِي السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةِ، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، وَفِي حَدِيثِ دَاوُدَ قَالَتْ: وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ: بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، وَالشَّعْبِيُّ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا: لَيْسَ لِلْمُطَلَّقَةِ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةٌ، إِذَا لَمْ يَمْلِكْ زَوْجُهَا الرَّجْعَةَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، عُمَرُ، وَعَبْدُ اللَّهِ، إِنَّ الْمُطَلَّقَةَ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةُ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَهَا السُّكْنَى، وَلَا نَفَقَةَ لَهَا، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا جَعَلْنَا لَهَا السُّكْنَى بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سورة الطلاق آية 1، قَالُوا: هُوَ الْبَذَاءُ أَنْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا، وَاعْتَلَّ بِأَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، لَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، السُّكْنَى لِمَا كَانَتْ تَبْذُو عَلَى أَهْلِهَا، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَلَا نَفَقَةَ لَهَا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قِصَّةِ حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں نہ «سکنی»(رہائش) ملے گا اور نہ «نفقہ»(اخراجات)“۔ مغیرہ کہتے ہیں: پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ عمر رضی الله عنہ کا کہنا ہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یا بھول گئی۔ عمر ایسی عورت کو «سکنٰی» اور «نفقہ» دلاتے تھے۔ دوسری سند سے ہشیم کہتے ہیں کہ ہم سے داود نے بیان کیا شعبی کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے پاس آیا اور میں نے ان سے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے شوہر نے انہیں طلاق بتہ دی تو انہوں نے «سکنٰی» اور «نفقہ» کے سلسلے میں مقدمہ کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ «سکنٰی» ہی دلوایا اور نہ «نفقہ» ۔ داود کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہا: اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزاروں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا یہی قول ہے۔ ان میں حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور شعبی بھی ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مطلقہ کے لیے جب اس کا شوہر رجعت کا اختیار نہ رکھے نہ سکنیٰ ہو گا اور نہ نفقہ، ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما ہیں کہتے ہیں کہ تین طلاق والی عورت کو «سکنٰی» اور «نفقہ» دونوں ملے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: اسے «سکنٰی» ملے گا «نفقہ» نہیں ملے گا۔ یہ مالک بن انس، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے، ۵- شافعی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے لیے «سکنٰی» کا حق کتاب اللہ کی بنیاد پر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلم کھلا کوئی بےحیائی کر بیٹھیں ۲؎، «بذاء» یہ ہے کہ عورت شوہر کے گھر والوں کے ساتھ بدکلامی کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کو «سکنٰی» نہ دینے کی علت بھی یہی ہے کہ وہ گھر والوں سے بدکلامی کرتی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے واقعے میں «نفقہ» نہ دینے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی رو سے اسے نفقہ نہیں ملے گا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن ابی داود/ الطلاق 39 (2288)، سنن النسائی/الطلاق 7 (3432، 3433)، و 70 (3578، 3579)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 10 (2036)، مسند احمد (6/412، 415، 415، 416)، سنن الدارمی/الطلاق 10 (2321) (تحفة الأشراف: 18025) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ الطلاق 39 (2284)، سنن النسائی/النکاح 8 (3224)، و 21 (3246)، و 22 (3247)، والطلاق 15 (3447)، موطا امام مالک/الطلاق 23 (67)، مسند احمد (6/411-417)، سنن الدارمی/النکاح 7 (2223)، من غیر ھذا الوجہ، و بتغیر یسیر في السیاق، وانظر أیضا ما تقدم برقم: 1135۔»
وضاحت: ۱؎: مسند احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ تین طلاقیں تین مختلف وقتوں میں دی گئی تھیں۔
۲؎: لیکن قرآن کا یہ حکم مطلقہ رجعیہ کے سلسلے میں ہے، کیونکہ آیت میں آگے یہ بھی ہے «لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا»(الطلاق: ۱)”یعنی: تھے نہیں معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی معاملہ پیدا کر دے“ یعنی ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے شوہر کے دل میں رجعت کا خیال پیدا کر دے، تو تین طلاق کی صورت میں رجعت کہاں ہے؟۔