علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی اور جابر رضی الله عنہما کی حدیث معلول ہے، ۲- اسی طرح اشعث بن عبدالرحمٰن نے بسند «مجالد عن عامر هو الشعبي عن الحارث عن علي» روایت کی ہے۔ اور عامر الشعبی نے بسند «جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجالد بن سعید کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے۔ انہی میں سے احمد بن حنبل ہیں، ۴- نیز عبداللہ بن نمیر نے اس حدیث کو بسند «مجالد عن عامر عن جابر بن عبد الله عن علي» روایت کی ہے، اس میں ابن نمیر کو وہم ہوا ہے۔ پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے، ۵- اور اسے مغیرہ، ابن ابی خالد اور کئی اور لوگوں نے بسند «الشعبی عن الحارث عن علی» روایت کی ہے، ۶- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف من حدیث جابر، ومن حدیث علی أخرجہ کل من: سنن ابی داود/ النکاح 16 (2076)، سنن ابن ماجہ/النکاح 33 (1934)، (تحفة الأشراف: 2348و10034)، مسند احمد (1/87) (صحیح) شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ جابر کی حدیث میں ”مجاہد“ اور علی رضی الله عنہ کی حدیث میں ”حارث اعور“ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: «محلل» وہ شخص ہے جو طلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح و مباشرت کرے، اور «محلل لہ» سے پہلا شوہر مراد ہے جس نے تین طلاقیں دی ہیں، اور طریقہ سے اپنی عورت سے دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے یہ حدیث دلیل ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح باطل اور حرام ہے کیونکہ لعنت حرام فعل ہی پر کی جاتی ہے، جمہور اس کی حرمت کے قائل ہیں، حنفیہ اسے جائز کہتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1535)
قال الشيخ زبير على زئي: (1119) إسناده ضعيف /د 2076، جه 1935 مجالد ضعيف (تقدم: 653) ولأصل الحديث شواھد كثيرة
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا سفيان، عن ابي قيس، عن هزيل بن شرحبيل، عن عبد الله بن مسعود، قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو قيس الاودي اسمه: عبد الرحمن بن ثروان، وقد روي هذا الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم عمر بن الخطاب، وعثمان بن عفان، وعبد الله بن عمرو وغيرهم، وهو قول: الفقهاء من التابعين، وبه يقول: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال: وسمعت الجارود بن معاذ يذكر، عن وكيع، انه قال بهذا، وقال: ينبغي ان يرمى بهذا الباب من قول اصحاب الراي، قال جارود: قال وكيع: وقال سفيان: إذا تزوج الرجل المراة ليحللها ثم بدا له ان يمسكها فلا يحل له ان يمسكها حتى يتزوجها بنكاح جديد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو قَيْسٍ الْأَوْدِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَرْوَانَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو وَغَيْرُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الْفُقَهَاءِ مِنَ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَ: وسَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَذْكُرُ، عَنْ وَكِيعٍ، أَنَّهُ قَالَ بِهَذَا، وقَالَ: يَنْبَغِي أَنْ يُرْمَى بِهَذَا الْبَابِ مِنْ قَوْلِ أَصْحَابِ الرَّأْيِ، قَالَ جَارُودُ: قَالَ وَكِيعٌ: وَقَالَ سُفْيَانُ: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ لِيُحَلِّلَهَا ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا حَتَّى يَتَزَوَّجَهَا بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے (دونوں) پر لعنت بھیجی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی اور طرق سے بھی روایت کی گئی ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ جن میں عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، عبداللہ بن عمر وغیرہم رضی الله عنہم بھی شامل ہیں۔ یہی تابعین میں سے فقہاء کا بھی قول ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، وکیع نے بھی یہی کہا ہے، ۴- نیز وکیع کہتے ہیں: اصحاب رائے کے قول کو پھینک دینا ہی مناسب ہو گا ۱؎، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلوم ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے۔
وضاحت: ۱؎: اصحاب الرائے سے مراد امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گو حلال کرنے کی ہی نیت سے ہو۔ ان کی رائے کو چھوڑ دینا اس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن مسروق، قال: " تلت عائشة هذه الآية يوم تبدل الارض غير الارض سورة إبراهيم آية 48، قالت: يا رسول الله، فاين يكون الناس؟ قال: على الصراط "، قال: هذا حديث حسن صحيح وقد روي من غير هذا الوجه عن عائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: " تَلَتْ عَائِشَةُ هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ سورة إبراهيم آية 48، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ؟ قَالَ: عَلَى الصِّرَاطِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عَائِشَةَ.
مسروق کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے آیت «يوم تبدل الأرض غير الأرض»”جس دن زمین و آسمان بدل کر دوسری طرح کے کر دیئے جائیں گے“(ابراہیم: ۴۸)، پڑھ کر سوال کیا: اللہ کے رسول! اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ” «على الصراط» پل صراط پر“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المنافقین 2 (2971)، سنن ابن ماجہ/الزہد 33 (4279) (تحفة الأشراف: 17617)، و مسند احمد (6/35، 101، 134، 218)، وسنن الدارمی/الرقاق 88 (2851) (صحیح)»