(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، " ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى على النجاشي فكبر اربعا ". قال: وفي الباب، عن ابن عباس، وابن ابي اوفى، وجابر، ويزيد بن ثابت، وانس. قال ابو عيسى: ويزيد بن ثابت هو اخو زيد بن ثابت وهو اكبر منه شهد بدرا، وزيد لم يشهد بدرا. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، يرون التكبير على الجنازة اربع تكبيرات، وهو قول: سفيان الثوري، ومالك بن انس، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرٍ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَزِيدُ بْنُ ثَابِتٍ هُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ شَهِدَ بَدْرًا، وَزَيْدٌ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، ابن ابی اوفی، جابر، یزید بن ثابت اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۳- یزید بن ثابت: زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔ یہ ان سے بڑے ہیں۔ یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے، ۴- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف، وحميد بن مسعدة، قالا: حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا يونس بن عبيد، عن محمد بن سيرين، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اخاكم النجاشي قد مات، فقوموا فصلوا عليه "، قال: فقمنا فصففنا كما يصف على الميت، وصلينا عليه كما يصلى على الميت. وفي الباب: عن ابي هريرة، وجابر بن عبد الله، وابي سعيد، وحذيفة بن اسيد، وجرير بن عبد الله. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد رواه ابو قلابة، عن عمه ابي المهلب، عن عمران بن حصين، وابو المهلب اسمه: عبد الرحمن بن عمرو، ويقال له: معاوية بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ "، قَالَ: فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا كَمَا يُصَفُّ عَلَى الْمَيِّتِ، وَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ كَمَا يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ. وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو، وَيُقَالُ لَهُ: مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا: ”تمہارے بھائی نجاشی ۱؎ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو“۔ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے، ۳- ابومہلب کا نام عبدالرحمٰن بن عمرو ہے۔ انہیں معاویہ بن عمرو بھی کہا جاتا ہے، ۴- اس باب میں ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز72 (1977) سنن ابن ماجہ/الجنائز33 (1535) (تحفة الأشراف: 10889) مسند احمد (4/439) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الجنائز22 (953) سنن النسائی/الجنائز57 (1948) مسند احمد (4/433، 441، 446) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھا جیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا، نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجر تھا اسی بادشاہ کے دور میں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶ھ کے آخر یا محرم ۷ھ میں نجاشی کو عمرو بن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور جعفر بن ابی طالب رضی الله عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوہ تبوک ۹ھ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔
۲؎: اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے، نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول امام احمد بن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی تعامل امت ہے۔