سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
The Book of the Etiquette of Judges
24. بَابُ : مَسِيرِ الْحَاكِمِ إِلَى رَعِيَّتِهِ لِلصُّلْحِ بَيْنَهُمْ
24. باب: صلح کرانے کے لیے حاکم کے رعایا کے پاس جانے کا بیان۔
Chapter: The Judge Going to His People to Reconcile Between Them
حدیث نمبر: 5415
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابو حازم، قال: سمعت سهل بن سعد الساعدي، يقول: وقع بين حيين من الانصار كلام حتى تراموا بالحجارة، فذهب النبي صلى الله عليه وسلم ليصلح بينهم، فحضرت الصلاة , فاذن بلال وانتظر رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاحتبس فاقام الصلاة، وتقدم ابو بكر رضي الله عنه , فجاء النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر يصلي بالناس، فلما رآه الناس صفحوا , وكان ابو بكر لا يلتفت في الصلاة، فلما سمع تصفيحهم التفت , فإذا هو برسول الله صلى الله عليه وسلم اراد ان يتاخر فاشار إليه ان اثبت، فرفع ابو بكر رضي الله عنه يعني يديه، ثم نكص القهقرى , وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فصلى فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة , قال:" ما منعك ان تثبت؟" قال: ما كان الله ليرى ابن ابي قحافة بين يدي نبيه، ثم اقبل على الناس، فقال:" ما لكم إذا نابكم شيء في صلاتكم صفحتم , إن ذلك للنساء، من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، يَقُولُ: وَقَعَ بَيْنَ حَيَّيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ كَلَامٌ حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ , فَأَذَّنَ بِلَالٌ وَانْتُظِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاحْتُبِسَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآهُ النَّاسُ صَفَّحُوا , وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا سَمِعَ تَصْفِيحَهُمُ الْتَفَتَ , فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنِ اثْبُتْ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَعْنِي يَدَيْهِ، ثُمَّ نَكَصَ الْقَهْقَرَى , وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَصَلَّى فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ , قَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ؟" قَالَ: مَا كَانَ اللَّهُ لِيَرَى ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ بَيْنَ يَدَيْ نَبِيِّهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ:" مَا لَكُمْ إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ صَفَّحْتُمْ , إِنَّ ذَلِكَ لِلنِّسَاءِ، مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ".
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کے دو قبیلوں کے درمیان تکرار ہوئی یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے لگے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان صلح کرانے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور آپ کا انتظار کیا اور رکے رہے، پھر اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو (بتانے کے لیے) تالی بجا دی۔ (ابوبکر نماز میں کسی اور طرف توجہ نہیں دیتے تھے) پھر جب انہوں نے ان سب کی تالی کی آواز سنی تو مڑے، دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا، تو آپ نے وہیں رہنے کا اشارہ کیا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: تمہیں وہیں رکنے سے کس چیز نے روکا؟ وہ بولے: یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ابوقحافہ کے بیٹے کو اپنے نبی کے آگے دیکھے، پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں نماز میں کوئی چیز پیش آتی ہے تو تالی بجانے لگتے ہو، یہ تو عورتوں کے لیے ہے، تم میں سے کسی کو جب کوئی بات پیش آئے تو وہ «سبحان اللہ» کہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 4693)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العمل فی الصلاة 3 (1201)، 16 (1218)، الصلح 1 (2690)، صحیح مسلم/الصلاة 22 (421)، مسند احمد (5/330، 331، 236) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 785
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يعقوب وهو ابن عبد الرحمن، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغه ان بني عمرو بن عوف كان بينهم شيء فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلح بينهم في اناس معه فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم فحانت الاولى فجاء بلال إلى ابي بكر فقال: يا ابا بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة فهل لك ان تؤم الناس قال: نعم إن شئت فاقام بلال وتقدم ابو بكر فكبر بالناس وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصف واخذ الناس في التصفيق وكان ابو بكر لا يلتفت في صلاته فلما اكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يامره ان يصلي فرفع ابو بكر يديه فحمد الله عز وجل ورجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس فلما فرغ اقبل على الناس فقال:" يا ايها الناس ما لكم حين نابكم شيء في الصلاة اخذتم في التصفيق إنما التصفيق للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه احد حين يقول سبحان الله إلا التفت إليه يا ابا بكر ما منعك ان تصلي للناس حين اشرت إليك". قال: ابو بكر ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَانَتِ الْأُولَى فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتِ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ قَالَ: نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ بِلَالٌ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَكَبَّرَ بِالنَّاسِ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ وَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيقِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ فِي التَّصْفِيقِ إِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ حِينَ يَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ إِلَّا الْتَفَتَ إِلَيْهِ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ". قَالَ: أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور نماز کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہو گا (پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 48 (684)، العمل في الصلاة 3 (1201)، 5 (1204)، 16 (1218)، السھو 9 (1234)، الصلح 1 (2690)، الأحکام 36 (7190)، صحیح مسلم/الصلاة 22 (421)، وقد أخرجہ: مسند احمد 5/336، 338، سنن الدارمی/الصلاة 95 (1404، 1405) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحیح بخاری میں اور خود مؤلف کے یہاں (حدیث رقم: ۷۹۴ میں) یہ صراحت ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا۔ ۲؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام راتب (مستقل امام) کہیں گیا ہوا ہو، اور اس کی جگہ کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو، تو جب امام راتب درمیان نماز آ جائے تو چاہے تو وہی نائب نماز پڑھاتا رہے، اور چاہے تو وہ پیچھے ہٹ آئے اور امام راتب نماز پڑھائے، مگر یہ بات اس وقت تک ہے جب نائب نے ایک رکعت بھی نہ پڑھائی ہو، اور اگر ایک رکعت پڑھا دی ہو تو پھر باقی نماز بھی وہی پوری کرائے، امام ابن عبدالبر کے نزدیک یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1184
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، قال: حدثنا عبيد الله وهو ابن عمر , عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم , يصلح بين بني عمرو بن عوف فحضرت الصلاة , فجاء المؤذن إلى ابي بكر , فامره ان يجمع الناس ويؤمهم , فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرق الصفوف حتى قام في الصف المقدم , وصفح الناس بابي بكر ليؤذنوه برسول الله صلى الله عليه وسلم وكان ابو بكر لا يلتفت في الصلاة , فلما اكثروا علم انه قد نابهم شيء في صلاتهم , فالتفت فإذا هو برسول الله صلى الله عليه وسلم , فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم اي كما انت , فرفع ابو بكر يديه فحمد الله واثنى عليه لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم رجع القهقرى , وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى , فلما انصرف , قال لابي بكر:" ما منعك إذ اومات إليك ان تصلي" , فقال ابو بكر رضي الله عنه: ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال للناس:" ما بالكم صفحتم إنما التصفيح للنساء، ثم قال: إذا نابكم شيء في صلاتكم فسبحوا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ عُمَرَ , عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يُصْلِحُ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ , فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ , فَأَمَرَهُ أَنْ يَجْمَعَ النَّاسَ وَيَؤُمَّهُمْ , فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَقَ الصُّفُوفَ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ , وَصَفَّحَ النَّاسُ بِأَبِي بَكْرٍ لِيُؤْذِنُوهُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ , فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلِمَ أَنَّهُ قَدْ نَابَهُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِمْ , فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ كَمَا أَنْتَ , فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى , وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى , فَلَمَّا انْصَرَفَ , قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ:" مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ تُصَلِّيَ" , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" مَا بَالُكُمْ صَفَّحْتُمْ إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ فَسَبِّحُوا".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا، تو مؤذن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور اس نے ان سے لوگوں کو جمع کر کے ان کی امامت کرنے کے لیے کہا (چنانچہ انہوں نے امامت شروع کر دی) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور صفوں کو چیر کر اگلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تالیاں بجانے لگے تاکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر دے دیں، جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو انہیں احساس ہوا کہ نماز میں کوئی چیز ہو گئی ہے، تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی اور طرف دھیان نہیں کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کہنے پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر وہ الٹے پاؤں پیچھے آ گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے، پھر آپ نے نماز پڑھائی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی، جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا؟ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ تم تالیاں بجا رہے تھے، تالیاں تو عورتوں کے لیے ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں تمہاری نماز میں کوئی چیز پیش آ جائے، تو تم سبحان اللہ کہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 22 (421)، مسند احمد 5/332، (تحفة الأشراف: 4733) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1208
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة , ومحمد بن المثنى واللفظ له , قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" التسبيح للرجال والتصفيق للنساء زاد ابن المثنى في الصلاة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لَهُ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ زَادَ ابْنُ الْمُثَنَّى فِي الصَّلَاةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔ ابن مثنیٰ نے «في الصلاة» کا اضافہ کیا ہے (یعنی نماز میں)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمل فی ال صلاة 5 (1203)، صحیح مسلم/الصلاة 23 (422)، سنن ابی داود/الصلاة 173 (939)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة 65 (1034)، (تحفة الأشراف: 15141)، مسند احمد 2/241، سنن الدارمی/الصلاة 95 (1403) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1209
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني سعيد بن المسيب , وابو سلمة بن عبد الرحمن , انهما سمعا ابا هريرة , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" التسبيح للرجال والتصفيق للنساء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ , وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 23 (422)، (تحفة الأشراف: 13349) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1210
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الفضيل بن عياض، عن الاعمش. ح وانبانا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن سليمان الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" التسبيح للرجال والتصفيق للنساء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ. ح وَأَنْبَأَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ (کہنا) مردوں کے لیے ہے، اور دستک دینا عورتوں کے لیے ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 12418)، مسند احمد 2/261، 440، 479 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1211
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد , حدثنا يحيى بن سعيد، عن عوف، قال: حدثني محمد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" التسبيح للرجال والتصفيق للنساء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14488)، مسند احمد 2/290، 432، 473، 492، 507 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.