(مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن الحسن , قال: حدثنا حجاج , قال: قال ابن جريج , اخبرني ابو الزبير , انه سمع جابرا , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يبيع حاضر لباد , دعوا الناس يرزق الله بعضهم من بعض". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ , أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ , دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، لوگوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ رزق (روزی) فراہم کرتا ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يخطب احدكم على خطبة بعض". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَخْطُبُ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ بَعْضٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی دوسرے کے پیغام پر پیغام نہ دے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگر پیغام پر پیغام دینے والے کو پہلے پیغام سے متعلق علم ہے تو اس کا یہ پیغام دینا کسی صورت میں درست نہیں ہو گا، البتہ لاعلمی کی صورت میں معذور سمجھا جائے گا، چونکہ پیغام پر پیغام دینے سے مسلمانوں میں باہمی دشمنی اور عداوت پھیلے گی، اور اسلامی معاشرہ کو اسلام، ان عیوب سے صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے پیغام پر پیغام دینا اسلام کی نظر میں حرام ٹھہرا تاکہ بغض و عداوت سے اسلامی معاشرہ پاک و صاف رہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، وسعيد بن عبد الرحمن , قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال محمد عن النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد ولا يبع الرجل على بيع اخيه، ولا يخطب على خطبة اخيه، ولا تسال المراة طلاق اختها لتكتفئ ما في إنائها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَنَاجَشُوا، وَلَا يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ وَلَا يَبِعِ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلَا يَخْطُبْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، وَلَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْتَفِئَ مَا فِي إِنَائِهَا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دھوکہ دینے کیلئے) چیزوں کی قیمت نہ بڑھاؤ ۱؎، کوئی شہری دیہاتی کا مال نہ بیچے ۲؎، اور کوئی اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرے، اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام دے، کوئی عورت اپنی بہن (سوکن) کے طلاق کی طلب گار نہ بنے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے پلٹ کر خود لے لے“۳؎۔
وضاحت: ۱؎: «نجش» اس بیع کو کہتے ہیں کہ جس میں سامان کی تشہیر اور قیمت میں اضافہ کی غرض سے سامان کی خوب خوب تعریف کی جائے، یا سامان کا بھاؤ اس کی خریداری کی نیت کئے بغیر بڑھایا جائے۔ ۲؎: یعنی اس کے سامان کی فروخت کے لیے دلالی نہ کرے، کیونکہ دلالی کی صورت میں دیگر شہریوں کو ضرر لاحق ہو گا، جب کہ دیہاتی اگر خود سے بیچے تو سستی قیمت میں بیچے گا۔ ۳؎: یعنی یہ خیال نہ کرے کہ جب سوکن مطلقہ ہو جائے گی، اور شوہر سے محروم ہو جائے گی تو اس کا حصہ خود اسے مل جائے گا، کیونکہ جس کے نصیب میں جو لکھا جا چکا ہے وہی ملے گا، پھر سوکن کے حق میں ناحق طلاق کی درخواست کا کیا فائدہ ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھائی کہیں نکاح کا پیغام دے چکا ہے، تو کوئی دوسرا مسلمان بھائی اس جگہ جب تک کہ نکاح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہ ہو جائے (نیا) پیغام نہ دے“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا غندر، عن هشام، عن محمد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يخطب احدكم على خطبة اخيه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر کوئی دوسرا پیغام نکاح نہ دے“۔
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن الحسن، قال: حدثنا الحجاج بن محمد، قال: قال: ابن جريج , سمعت نافعا يحدث , ان عبد الله بن عمر، كان يقول:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيع بعضكم على بيع بعض، ولا يخطب الرجل على خطبة الرجل، حتى يترك الخاطب قبله، او ياذن له الخاطب". (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ: ابْنُ جُرَيْجٍ , سَمِعْتُ نَافِعًا يُحَدِّثُ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ الرَّجُلِ، حَتَّى يَتْرُكَ الْخَاطِبُ قَبْلَهُ، أَوْ يَأْذَنَ لَهُ الْخَاطِبُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ تم میں سے بعض بعض کی بیع پر بیع کرے ۱؎ اور نہ ہی کوئی آدمی دوسرے آدمی کے شادی کے پیغام پر اپنا پیغام دے۔ جب تک (پہلا) پیغام دینے والا چھوڑ نہ دے ۲؎ یا وہ دوسرے کو پیغام دینے کی اجازت نہ دیدے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی دکاندار کا سودا طے ہو رہا ہو تو پڑوسی دکاندار خریدار کو یہ کہہ کر نہ بلائے کہ میں تمہیں اس سے کم قیمت پر سامان دوں گا۔ ۲؎: یعنی دوسری جانب سے انکار ہو گیا یا وہ خود ہی دستبردار ہو گیا ہو۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جو جانوروں کا مثلہ کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کسی جاندار کے ہاتھ پاؤں ناک اور کان وغیرہ اعضاء کو کاٹ کر اس کی شکل و صورت بگاڑ دینے کو مثلہ کہتے ہیں، مثلہ حرام ہے خواہ انسان کا ہو یا جانور کا، اور کسی حلال جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت کی بوٹیاں بنانے کی کے مقصد سے اس کے ٹکڑے کرنا مثلہ نہیں ہے، مثلہ میں فقط شبیہ بگاڑ کر پھینک دینا مقصود ہوتا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور , قال: حدثنا سفيان , عن ابي الزناد , عن الاعرج , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا تلقوا الركبان للبيع , ولا تصروا الإبل والغنم , من ابتاع من ذلك شيئا فهو بخير النظرين , فإن شاء امسكها , وإن شاء ان يردها ردها ومعها صاع تمر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ أَبِي الزِّنَادِ , عَنْ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ , وَلَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ , مَنِ ابْتَاعَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ , فَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا , وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَرُدَّهَا رَدَّهَا وَمَعَهَا صَاعُ تَمْرٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگے جا کر تجارتی قافلے سے مت ملو ۱؎ اور اونٹنیوں اور بکریوں کو ان کے تھنوں میں دودھ روک کر نہ رکھو ۲؎، اگر کسی نے ایسا جانور خرید لیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو اسے لوٹا دے اور (لوٹاتے وقت) اس کے ساتھ ایک صاع کھجور دیدے“۳؎۔
وضاحت: ۱؎: چونکہ باہر سے آنے والے تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہو سکتا ہے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہو گا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔ ۲؎: تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو «تصریہ» کہتے ہیں تاکہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے۔ ۳؎: تاکہ وہ اس دودھ کا بدل بن سکے جو خریددار نے دوہ لیا ہے، نیز واضح رہے کہ کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جا سکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراؤ ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جا رہی ہے اس لیے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی، بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو صحیح اور ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل و قال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے۔ کسی قیاس سے اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
(مرفوع) اخبرني عبد الله بن محمد بن تميم , قال: حدثنا حجاج , قال: حدثني شعبة , عن عدي بن ثابت , عن ابي حازم , عن ابي هريرة , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن التلقي , وان يبيع مهاجر للاعرابي , وعن التصرية , والنجش , وان يستام الرجل على سوم اخيه , وان تسال المراة طلاق اختها". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ , عَنْ أَبِي حَازِمٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّلَقِّي , وَأَنْ يَبِيعَ مُهَاجِرٌ لِلْأَعْرَابِيِّ , وَعَنِ التَّصْرِيَةِ , وَالنَّجْشِ , وَأَنْ يَسْتَامَ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ , وَأَنْ تَسْأَلَ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر سامان خریدنے سے، مہاجر (شہری) کو دیہاتی کا مال بیچنے سے ۱؎، جانوروں کے تھن میں قیمت بڑھانے کے مقصد سے دودھ چھوڑنے سے، خود خریدنا مقصود نہ ہو لیکن دوسرے کو ٹھگانے کے لیے بڑھ بڑھ کر قیمت لگانے سے اور اپنے بھائی کے مول پر بھاؤ بڑھانے سے اور اپنی سوکن ۲؎ کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنے سے منع فرمایا۔
وضاحت: ۱؎: «تلقی»(شہر سے باہر جا کر بازار آنے والے تاجر کا مال خریدنے) میں نیز دیہات سے شہر کے بازار میں مال لانے والے سے بازار سے پہلے ہی مال خرید لینے میں اس طرح کے دونوں تاجروں نیز شہر کے عام باشندوں کو بھی نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے اس طرح کی خریداری سے منع کر دیا گیا ہے تاجر کا نقصان اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بازار میں سامان کا بھاؤ زیادہ ہو اور تاجر کا نقصان ہو جائے اور شہر کے باشندوں کا نقصان اس طرح ہو گا کہ درمیان میں ایک اور واسطہ ہو جانے کے سبب سامان کا بھاؤ زیادہ ہو جائے۔ ۲؎: یعنی ہونے والی سوکن، اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی کسی بیوی کی موجودگی میں کسی دوسری عورت کو نکاح کا پیغام دے تو وہ عورت اس سے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دینے کی شرط رکھے، یہ ممنوع ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة , عن مالك , عن ابي الزناد , عن الاعرج , عن ابي هريرة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تلقوا الركبان للبيع , ولا يبع بعضكم على بيع بعض , ولا تناجشوا , ولا يبيع حاضر لباد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ أَبِي الزِّنَادِ , عَنْ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ , وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ , وَلَا تَنَاجَشُوا , وَلَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجارتی قافلے سے (مال) خریدنے کے لیے باہر نکل کر نہ ملو، اور تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے، نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرو اور نہ شہری دیہاتی کا سامان بیچے“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے، شہری کا باہر جا کر دیہاتی سے مال لینے سے اور اس بات سے منع فرمایا کہ شہری دیہاتی کا سامان بیچے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع , قال: انبانا عبد الرزاق , قال: انبانا معمر , عن ابن طاوس , عن ابيه , عن ابن عباس , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتلقى الركبان , وان يبيع حاضر لباد" , قلت لابن عباس: ما قوله حاضر لباد؟ , قال: لا يكون له سمسار. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ , وَأَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ" , قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا قَوْلُهُ حَاضِرٌ لِبَادٍ؟ , قَالَ: لَا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی آگے جا کر تجارتی قافلے سے ملے، اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے، (راوی طاؤس کہتے ہیں:) میں نے ابن عباس سے کہا: اس قول ”کوئی شہری دیہاتی کا سامان نہ بیچے“ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: یعنی شہری دلال نہ بنے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگے جا کر تجارتی قافلے سے نہ ملو، جو اس سے جا کر ملا اور اس سے کوئی چیز خرید لی، جب اس کا مالک بازار آئے تو اسے اختیار ہو گا“۱؎۔
(مرفوع) حدثنا مجاهد بن موسى , قال: حدثنا إسماعيل , عن معمر , عن الزهري , عن سعيد بن المسيب , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يبيعن حاضر لباد , ولا تناجشوا , ولا يساوم الرجل على سوم اخيه , ولا يخطب على خطبة اخيه , ولا تسال المراة طلاق اختها لتكتفئ ما في إنائها ولتنكح , فإنما لها ما كتب الله لها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى , قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَبِيعَنَّ حَاضِرٌ لِبَادٍ , وَلَا تَنَاجَشُوا , وَلَا يُسَاوِمْ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ , وَلَا يَخْطُبْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ , وَلَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْتَفِئَ مَا فِي إِنَائِهَا وَلِتُنْكَحَ , فَإِنَّمَا لَهَا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال ہرگز نہ بیچے، اور نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرو، اور نہ آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے، اور نہ (مسلمان) بھائی کی شادی کے پیغام پر پیغام بھیجے اور نہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے بھی اپنے لیے انڈیل لے (یعنی جو اس کی قسمت میں تھا وہ اسے مل جائے) بلکہ (بلا مطالبہ و شرط) نکاح کرے، کیونکہ اسے وہی ملے گا جو اس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , عن مالك , والليث , واللفظ له , عن نافع , عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" لا يبيع احدكم على بيع اخيه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ مَالِكٍ , وَاللَّيْثُ , وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" لَا يَبِيعُ أَحَدُكُمْ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے (مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے یہاں تک کہ وہ اسے خرید لے یا چھوڑ دے“۔
(مرفوع) حدثني محمد بن عبد الاعلى , قال: حدثنا يزيد , قال: حدثنا معمر , عن الزهري , عن سعيد بن المسيب , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا يبيع حاضر لباد , ولا تناجشوا , ولا يزيد الرجل على بيع اخيه , ولا تسال المراة طلاق اختها لتستكفئ به ما في صحفتها". (مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ , وَلَا تَنَاجَشُوا , وَلَا يَزِيدُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ , وَلَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَكْفِئَ بِهِ مَا فِي صَحْفَتِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، اور نہ کوئی فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرے، اور نہ آدمی اپنے بھائی کی بیع پر اضافہ کرے، اور نہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے اپنے میں انڈیل لے“۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالا اور ایک کمبل نیلام کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة 26 (1641)، سنن الترمذی/البیوع10(1218)، سنن ابن ماجہ/التجا رات25(2198)، (تحفة الأشراف: 978)، مسند احمد (3/100، 114، 126) (ضعیف) 1؎ (اس کے راوی ’’ابوبکر حنفی‘‘ مجہول ہیں)»
وضاحت: ۱؎: انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، مگر خرید و فروخت کے معاملات میں حرمت کی جو بنیاد ہے بیع مزایدہ (نیلام) پر صادق نہیں آتی، کیونکہ اس معاملہ میں بیچنے والے کی رائے کسی بھاؤ پر حتمی اور آخری نہیں اس لیے دوسرے خریدار کو بھاؤ بڑھا کر سودا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔