علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مذی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے شرما رہا تھا، تو میں نے مقداد کو حکم دیا، انہوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں وضو ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 157 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف کا مقصود اس حدیث کی روایت کے سلسلہ میں سلیمان الاعمش کے تلامذہ کے باہمی اختلاف کو واضح کرنا ہے کہ یہی حدیث محمد بن حاتم کی سند میں عبیدہ نے اسے بواسطہ «اعمش عن حبیب بن ابی ثابت عن سعید بن جبیر عن ابن عباس عن علی» اور بعد والی حدیث محمد بن عبدالٔاعلی کی سند میں شعبہ نے بواسطہ «اعمش عن منذر عن محمد بن علی عن علی» روایت کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابي بكر بن عياش، عن ابي حصين، عن ابي عبد الرحمن، قال: قال علي:" كنت رجلا مذاء وكانت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم تحتي فاستحييت ان اساله، فقلت لرجل جالس إلى جنبي: سله، فساله، فقال فيه: الوضوء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: قال عَلِيٌّ:" كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً وَكَانَتِ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتِي فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَهُ، فَقُلْتُ لِرَجُلٍ جَالِسٍ إِلَى جَنْبِي: سَلْهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ فِيهِ: الْوُضُوءُ".
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کثرت سے مذی ۱؎ آتی تھی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) میرے عقد نکاح میں تھیں، جس کی وجہ سے میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے میں شرم محسوس کی، تو میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے ایک آدمی سے کہا: تم پوچھو، تو اس نے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں وضو ہے“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: اخبرنا جرير، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن علي رضي الله عنه، قال: قلت للمقداد: إذا بنى الرجل باهله فامذى ولم يجامع، فسل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فإني استحي ان اساله عن ذلك وابنته تحتي، فساله، فقال:" يغسل مذاكيره ويتوضا وضوءه للصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قال: قُلْتُ لِلْمِقْدَادِ: إِذَا بَنَى الرَّجُلُ بِأَهْلِهِ فَأَمْذَى وَلَمْ يُجَامِعْ، فَسَلِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَإِنِّي أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ وَابْنَتُهُ تَحْتِي، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ:" يَغْسِلُ مَذَاكِيرَهُ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد سے کہا: جب آدمی اپنی بیوی کے پاس جائے، اور مذی نکل آئے، اور جماع نہ کرے تو (اس پر کیا ہے؟) تم اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھنے سے شرما رہا ہوں، کیونکہ آپ کی صاحبزادی میرے عقد نکاح میں ہیں، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی شرمگاہ دھو لیں، اور نماز کی طرح وضو کر لیں“۔
عائش بن انس سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو میں نے آپ کی صاحبزادی جو میرے عقد نکاح میں تھیں کی وجہ سے عمار بن یاسر کو حکم دیا کہ وہ (اس بارے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں، (چنانچہ انہوں نے پوچھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں وضو کافی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10156) (منکر) (مقداد کی جگہ عمار بن یاسر کا ذکر منکر ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کی صحیح حدیثوں مں مقداد کا ذکر آیا ہے)»
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے عمار رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارے میں سوال کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی شرمگاہ دھو لیں، اور وضو کر لیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 3550) (منکر) (مقداد کی جگہ عمار بن یاسر کا ذکر منکر ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کی صحیح حدیثوں مں مقداد کا ذکر آیا ہے، کما تقدم)»
قال الشيخ الألباني: منكر والمحفوظ أن المأمور المقداد
(مرفوع) اخبرنا عتبة بن عبد الله المروزي، عن مالك وهو ابن انس، عن ابي النضر، عن سليمان بن يسار، عن المقداد بن الاسود، ان عليا امره ان يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل إذا دنا من اهله فخرج منه المذي ماذا عليه؟ فإن عندي ابنته وانا استحي ان اساله، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" إذا وجد احدكم ذلك فلينضح فرجه ويتوضا وضوءه للصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَرْوَزِيُّ، عَنْ مَالِكٍ وَهُوَ ابْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَهُ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ إِذَا دَنَا مِنْ أَهْلِهِ فَخَرَجَ مِنْهُ الْمَذْيُ مَاذَا عَلَيْهِ؟ فَإِنَّ عِنْدِي ابْنَتَهُ وَأَنَا أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ".
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کریں جو اپنی بیوی سے قریب ہو اور اس سے مذی نکل آئے، تو اس پر کیا واجب ہے؟ (وضو یا غسل) کیونکہ میرے عقد نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) ہیں، اس لیے میں (خود) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے شرما رہا ہوں، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایسا پائے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لے اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 83 (207)، سنن ابن ماجہ/فیہ 70 (505)، (تحفة الأشراف: 11544)، موطا امام مالک/الطہارة 13 (53)، مسند احمد 6/4، 5 ویأتی عند المؤلف برقم: 441 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (207) ابن ماجه (505) وانظر الحديث الآتي (441) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 321
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، عن شعبة، قال: اخبرني سليمان، قال: سمعت منذرا، عن محمد بن علي، عن علي، قال:" استحييت ان اسال النبي صلى الله عليه وسلم عن المذي من اجل فاطمة، فامرت المقداد بن الاسود، فساله، فقال فيه: الوضوء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعَلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، قال: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ، قال: سَمِعْتُ مُنْذِرًا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ، قال:" اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمَذْيِ مِنْ أَجْلِ فَاطِمَةَ، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ فِيهِ: الْوُضُوءُ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے مذی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود پوچھنے میں شرم محسوس کی، تو مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں وضو واجب ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 51 (132)، الوضوء 34 (178)، صحیح مسلم/الحیض 4 (303)، (تحفة الأشراف: 10264)، مسند احمد 1/80، 82، 103، 124، 140، ولہ طرق أخری عن علی۔ انظر الأرقام: 436-441 (صحیح)»
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا شخص تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب مذی دیکھو تو اپنا ذکر دھو لو، اور نماز کے وضو کی طرح وضو کر لو، اور جب پانی (منی) کودتا ہوا نکلے تو غسل کرو“۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو میں نے ۱؎، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مذی دیکھو تو وضو کر لو، اور اپنا ذکر دھو لو، اور جب پانی (منی) کو کودتے دیکھو، تو غسل کرو“۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 10079) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مقداد یا عمار کے واسطہ سے پوچھا، جیسا کہ حدیث نمبر: ۱۵۲، ۱۵۷ میں گزر چکا ہے۔ ۲؎: منی کا ذکر افادئہ مزید کے لیے ہے ورنہ جواب مذی کے ذکر ہی پر پورا ہو چکا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اور عمرو کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) جب کھانے یا سونے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے تو وضو کرتے، اور عمرو نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ کرتے تو وضو کرتے، اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھو لیتے ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، عن ابي سلمة، ان عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا اراد ان ينام وهو جنب توضا، وإذا اراد ان ياكل او يشرب، قالت: غسل يديه ثم ياكل او يشرب". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ تَوَضَّأَ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ أَوْ يَشْرَبَ، قَالَتْ: غَسَلَ يَدَيْهِ ثُمَّ يَأْكُلُ أَوْ يَشْرَبُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے اور آپ جنبی ہوتے تو وضو کرتے، اور جب کھانے یا پینے کا ارادہ کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر کھاتے یا پیتے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 17769) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم میں سے کوئی بحالت جنابت سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ وضو کر لے“(تو سو سکتا ہے)۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: ذكر عمر لرسول الله صلى الله عليه وسلم انه تصيبه الجنابة من الليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" توضا واغسل ذكرك ثم نم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال: ذَكَرَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَكَرَكَ ثُمَّ نَمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ وہ رات میں جنبی ہو جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کر لو اور اپنا عضو مخصوص دھو لو، پھر سو جاؤ“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سفيان، عن عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن ابي بكر الصديق رضي الله، عن ابيه، عن عائشة، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نرى إلا الحج، فلما كنا بسرف حضت، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال:" ما لك؟ انفست؟" قلت: نعم، قال:" هذا امر كتبه الله عز وجل على بنات آدم، فاقضي ما يقضي الحاج غير ان لا تطوفي بالبيت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ:" مَا لَكِ؟ أَنَفِسْتِ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارا مقصد صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا بات ہے؟ کیا تم حائضہ ہو گئی ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں پر مقدر کر دیا ہے ۱؎، اب تم وہ سارے کام کرو، جو حاجی کرتا ہے، البتہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 291 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آدم زادیوں میں حواء بھی داخل ہیں اس لیے کہ آدم زاویوں سے عورتوں کی نوع مراد ہے۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن ميمون، قال: حدثنا مخلد بن يزيد، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: تذاكر علي، والمقداد، وعمار، فقال علي إني امرؤ مذاء وإني استحي ان اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمكان ابنته مني فيساله احدكما، فذكر لي ان احدهما ونسيته ساله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ذاك المذي إذا وجده احدكم فليغسل ذلك منه وليتوضا وضوءه للصلاة او كوضوء الصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قال: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: تَذَاكَرَ عَلِيٌّ، وَالْمِقْدَادُ، وَعَمَّارٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ إِنِّي امْرُؤٌ مَذَّاءٌ وَإِنِّي أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ مِنِّي فَيَسْأَلُهُ أَحَدُكُمَا، فَذَكَرَ لِي أَنَّ أَحَدَهُمَا وَنَسِيتُهُ سَأَلَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَاكَ الْمَذْيُ إِذَا وَجَدَهُ أَحَدُكُمْ فَلْيَغْسِلْ ذَلِكَ مِنْهُ وَلْيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ أَوْ كَوُضُوءِ الصَّلَاةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ علی، مقداد اور عمار رضی اللہ عنہم نے آپس میں بات کی، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک ایسا آدمی ہوں جسے بہت مذی آتی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس کے بارے میں) پوچھنے سے شرماتا ہوں، اس لیے کہ آپ کی صاحبزادی میرے عقد نکاح میں ہیں، تو تم دونوں میں سے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے (عطاء کہتے ہیں:) ابن عباس رضی اللہ عنہا نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان دونوں میں سے ایک نے (میں اس کا نام بھول گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مذی ہے، جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اسے اپنے جسم سے دھو لے، اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے“، راوی کو شک ہے «وضوئه للصلاة» کہا یا ” «كوضوء الصلاة» کہا۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے بہت مذی آتی تھی، تو میں نے ایک آدمی کو حکم دیا، تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں وضو ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن ليث بن سعد، عن بكير بن الاشج، عن سليمان بن يسار، قال: ارسل علي بن ابي طالب رضي الله عنه المقداد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يساله عن الرجل يجد المذي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يغسل ذكره ثم ليتوضا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قال: أَرْسَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْمِقْدَادَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الْمَذْيَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَغْسِلُ ذَكَرَهُ ثُمَّ لِيَتَوَضَّأْ".
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مقداد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ وہ آپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھیں جو مذی پاتا ہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی شرمگاہ دھو لے، پھر وضو کر لے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 436، و بإرسالہ تفرد المؤلف۔ (’’سلیمان بن یسار‘‘ اور ’’علی رضی اللہ عنہ“ کے درمیان سند میں انقطاع ہے) (صحیح بما قبلہ وبما بعدہ)»
(مرفوع) اخبرنا عتبة بن عبد الله، قال: قرئ على مالك وانا اسمع، عن ابي النضر، عن سليمان بن يسار، عن المقداد بن الاسود، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، امره ان يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل إذا دنا من المراة فخرج منه المذي، فإن عندي ابنته وانا استحيي ان اساله، فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" إذا وجد احدكم ذلك فلينضح فرجه وليتوضا وضوءه للصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: قُرِئَ عَلَى مَالِكٍ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَمَرَهُ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ إِذَا دَنَا مِنَ الْمَرْأَةِ فَخَرَجَ مِنْهُ الْمَذْيُ، فَإِنَّ عِنْدِي ابْنَتَهُ وَأَنَا أَسْتَحْيِي أَنْ أَسْأَلَهُ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ وَلْيَتَوَضَّأْ وَضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ".
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق پوچھیں کہ جب وہ عورت سے قریب ہوتا ہو تو اسے مذی نکل آتی ہو، چونکہ میرے عقد نکاح میں آپ کی صاحبزادی ہیں اس لیے میں پوچھنے سے شرما رہا ہوں، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اسے چاہیئے کہ اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لے، اور اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کر لے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 156 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پہلی حدیث میں مخرمہ بن بکیر نے اسے بواسطہ بکیر عن سلیمان بن یسار عن ابن عباس روایت کیا ہے، اور اس میں شرمگاہ پر پانی چھڑکنے کا ذکر ہے، اور دوسری حدیث میں لیث بن سعد نے بکیر عن سلیمان بن یسار مرسلاً بغیر ابن عباس کے واسطہ کے روایت کیا ہے، اور اس میں شرمگاہ کے دھونے کا ذکر ہے، تیسری روایت کی سند میں بکیر کا ذکر نہیں ہے، غالباً مصنف نے اسے نضح والی روایت کی تائید میں یا دونوں روایتوں کی تقویت کے لیے ذکر کیا ہے کیونکہ ان دونوں روایتوں میں انقطاع ہے، پہلی میں اس لیے کہ مخرمہ کا سماع اپنے باپ سے نہیں اور دوسری مرسل ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (156) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 323