سنن نسائي
صفة الوضوء
ابواب: وضو کا طریقہ
112. بَابُ : مَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ وَمَا لاَ يَنْقُضُ الْوُضُوءَ مِنَ الْمَذْىِ
باب: وضو کو توڑ دینے اور نہ توڑنے والی چیزوں کا بیان، مذی سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 156
أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَرْوَزِيُّ، عَنْ مَالِكٍ وَهُوَ ابْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَهُ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ إِذَا دَنَا مِنْ أَهْلِهِ فَخَرَجَ مِنْهُ الْمَذْيُ مَاذَا عَلَيْهِ؟ فَإِنَّ عِنْدِي ابْنَتَهُ وَأَنَا أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ".
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کریں جو اپنی بیوی سے قریب ہو اور اس سے مذی نکل آئے، تو اس پر کیا واجب ہے؟ (وضو یا غسل) کیونکہ میرے عقد نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) ہیں، اس لیے میں (خود) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے شرما رہا ہوں، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایسا پائے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لے اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 83 (207)، سنن ابن ماجہ/فیہ 70 (505)، (تحفة الأشراف: 11544)، موطا امام مالک/الطہارة 13 (53)، مسند احمد 6/4، 5 ویأتی عند المؤلف برقم: 441 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (207) ابن ماجه (505) وانظر الحديث الآتي (441) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 321
سنن نسائی کی حدیث نمبر 156 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 156
156۔ اردو حاشیہ:
➊ مذی نجس ہے لیکن اس کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔ اگر اس کا نکلنا یقینی ہے اور خارج ہو چکی ہو تو مذکورہ احادیث کی روشنی میں شرم گاہ اور اردگرد کے آلودہ مقام کو دھونا ضروری ہے بلکہ بعض احادیث سے خصیتین کو دھونے کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 208]
اور جس کپڑے کو مذی لگی ہو تو صحیح احادیث کی روشنی میں اس کے دھونے میں تخفیف ہے، یعنی متاثرہ مقام پر پانی کا ایک چلو بھر کر چھینٹے بھی مار لیے جائیں تو طہارت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑوں پر مذی لگنے کے متعلق پوچھا کہ اس صورت میں طہارت کیسے حاصل ہو گی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے خیال میں جہاں مذی لگی ہو تو تیرے لیے چلو بھر پانی لے کر کپڑوں پر چھینٹے مار لینا کافی ہے۔“ معلوم ہوا کہ کپڑے پر لگی مذی کے ازالے کے لیے کم از کم یہ شرعی رخصت موجود ہے۔ اگر کوئی دھونا چاہے تو اس کی مرضی ہے، بہرحال مذکورہ صورت سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔ یہی موقف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ہر صورت میں کپڑے کو دھویا ہی جائے۔ دیکھیے: [جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: 115]
لیکن درست موقف امام احمد رحمہ اللہ کا ہے اور اس کی حدیث سے تائید بھی ہوتی ہے۔ گویا احادیث میں جہاں دھونے کا حکم ہے، وہاں مراد شرمگاہ ہے اور جہاں چھینٹوں کا ذکر ہے وہاں مراد کپڑے پر چھینٹے مارنا ہے۔ یاد رہے کہ پانی میں ہاتھ ڈبو کر کپڑے پر مارے ہوئے چھینٹے کفایت نہیں کرتے کیونکہ حدیث میں ”ایک چلو“ کی قید ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ بعض احادیث میں «نضح» کا لفظ ہے اگرچہ اس سے مراد دھونا اور چھینٹے مارنا، دونوں ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ بعض روایات میں «رش» کے الفاظ بھی ہیں، اس لیے مراد یہی ہے کہ کپڑوں پر چھینٹے کافی ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 156
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 209
´منی جب زور سے اور اچھل کے نکلے تو غسل واجب ہو جاتا ہے`
«. . . عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قُلْتُ لِلْمِقْدَادِ: فَذَكَرَ مَعْنَاهُ . . .»
”. . . علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 209]
فوائد و مسائل:
➊ سنن ابوداود حدیث [208] اور [209] ضعیف ہیں۔ اس لیے خصیتین کا دھونا ضروری نہیں۔ صرف ذکر کا دھو لینا کافی ہے۔ تاہم بشرط صحت (جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہیں) ذکر کے ساتھ خصیتین کا بھی دھونا ضروری ہو گا۔
➋ منی جب زور سے اور اچھل کے نکلے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ مگر مذی، ودی اور جریان منی سے صرف وضو لازم آتا ہے۔
➌ وضو کا اطلاق دو معانی پر ہوتا ہے۔ ایک صرف لغوی اعتبار سے یعنی منہ ہاتھ دھو لینا۔ دوسرا اصطلاحی وضو یعنی جو وضو، نماز کے لیے کیا جاتا ہے، مذکورہ بالا حدیث میں اسی اصطلاحی وضو کا ذکر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 209
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 153
´وضو کو توڑ دینے اور نہ توڑنے والی چیزوں کا بیان، مذی سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد سے کہا: جب آدمی اپنی بیوی کے پاس جائے، اور مذی نکل آئے، اور جماع نہ کرے تو (اس پر کیا ہے؟) تم اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھنے سے شرما رہا ہوں، کیونکہ آپ کی صاحبزادی میرے عقد نکاح میں ہیں، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی شرمگاہ دھو لیں، اور نماز کی طرح وضو کر لیں۔“ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 153]
153۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، نیز اس حدیث میں بھی وہی مسئلہ بیان ہوا ہے جو گزشتہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إرواء الغلیل، رقم: 47، 152 و صحیح سنن النسائي اللألباني، رقم 153]
➋ «مَذَاكِيرَهُ» اس سے مراد عضو مخصوص، خصیتین اور ارد گرد کی جگہ ہے کیونکہ مذی عضو سے نکل کر ادھر ادھر لگ جاتی ہے یا اس کے لگنے کا قوی احتمال ہے، اس لیے مناسب ہے کہ عضو کے ساتھ ساتھ اطراف کو بھی دھو لے تاکہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ خصیتین کو دھونے سے مذی بھی منقطع ہو جائے گی، یہ اضافی فائدہ ہے۔ واجب تو اتنی جگہ ہی دھونا ہے جہاں مذی لگی ہو، البتہ امام احمد رحمہ اللہ عضو مخصوص اور خصیتین کو دھونا ضروری سمجھتے ہیں، ظاہر الفاظ اسی کی تائید کرتے ہیں بلکہ ایک روایت میں خصیتین کے دھونے کا صراحتاً حکم مذکور ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 208]
➍ اس حدیث میں سسرال کے ساتھ حسن معاشرت کا سبق دیا گیا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کے رشتے داروں کے سامنے اس کے ساتھ تنہائی والے معاملات کا تذکرہ نہ کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 153
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 441
´بکیر سے روایت میں ان کے تلامذہ کے اختلاف کا بیان۔`
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق پوچھیں کہ جب وہ عورت سے قریب ہوتا ہو تو اسے مذی نکل آتی ہو، چونکہ میرے عقد نکاح میں آپ کی صاحبزادی ہیں اس لیے میں پوچھنے سے شرما رہا ہوں، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اسے چاہیئے کہ اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لے، اور اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کر لے۔“ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 441]
441 ۔ اردو حاشیہ: مندرجہ بالا احادیث سمجھنے کے لیے دیکھیے سنن نسائی فوائد احادیث: 152، 153، 157۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 441
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث505
´مذی سے وضو کے حکم کا بیان۔`
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی سے قریب ہوتا ہے، اور اسے انزال نہیں ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ایسا ہو تو آدمی اپنی شرمگاہ پر پانی ڈال لے یعنی اسے دھو لے، اور وضو کر لے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 505]
اردو حاشہ:
قریب جانے سے مراد پیار وغیرہ کے مراحل ہیں جماع مراد نہیں ہے کیونکہ جماع سے غسل فرض ہوجاتا ہےاگرچہ انزال نہ بھی ہو۔ (صحيح البخاري، الغسل، باب إذا التقي الختانان، حديث: 291، و صحيح مسلم، الحيض، باب نسخ الماء من الماء و وجوب الغسل بالتقاء الختانان، حديث: 348)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 505