(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن وكيع، عن شعبة، قال: حدثني حميد بن نافع، عن زينب بنت ام سلمة، قالت ام حبيبة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاثة ايام، إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، وہ شوہر کے انتقال پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 30 (1280، 1281)، والطلاق 46 (5334)، 47 (5338)، 50 (5345)، صحیح مسلم/الطلاق 9 (1486)، سنن ابی داود/الطلاق 43 (2299)، سنن الترمذی/الطلاق 18 (1195)، (تحفة الأشراف: 15874)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق 34 (2084)، موطا امام مالک/الطلاق 35 (101)، مسند احمد (6/325، 326، 426)، سنن الدارمی/الطلاق 12 (2330)، ویأتي عند المؤلف في 59، 63 (بأرقام3557، 3563) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرني إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن يحيى بن سعيد بن قيس بن قهد الانصاري، وجده قد ادرك النبي صلى الله عليه وسلم، عن حميد بن نافع، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، وام حبيبة، قالتا: جاءت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن ابنتي توفي عنها زوجها، وإني اخاف على عينها، افاكحلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد كانت إحداكن تجلس حولا، وإنما هي اربعة اشهر وعشرا، فإذا كان الحول خرجت، ورمت وراءها ببعرة". (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَجَدُّهُ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتَا: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَإِنِّي أَخَافُ عَلَى عَيْنِهَا، أَفَأَكْحُلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَجْلِسُ حَوْلًا، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، فَإِذَا كَانَ الْحَوْلُ خَرَجَتْ، وَرَمَتْ وَرَاءَهَا بِبَعْرَةٍ".
ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میری بیٹی کے شوہر (یعنی میرے داماد) کا انتقال ہو گیا ہے اور مجھے (عدت میں بیٹھی) بیٹی کی آنکھ کے خراب ہو جانے کا خوف ہے تو میں اس کی آنکھ میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں (سوگ منانے والی) عورت زمانہ جاہلیت میں سال بھر بیٹھی رہتی تھی، اور یہ تو چار مہینہ دس دن کی بات ہے، جب سال پورا ہو جاتا تو وہ باہر نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی“۔
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی منبر سے فرماتے ہوئے سنا: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے سوائے شوہر کے، اس (کے مرنے) پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له، قال: انبانا ابن القاسم، عن مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن حميد بن نافع، عن زينب بنت ابي سلمة انها اخبرته بهذه الاحاديث الثلاثة، قالت زينب: دخلت على ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي ابوها ابو سفيان بن حرب، فدعت ام حبيبة بطيب فدهنت منه جارية، ثم مست بعارضيها، ثم قالت: والله ما لي بالطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قالت زينب: ثم دخلت على زينب بنت جحش حين توفي اخوها، وقد دعت بطيب ومست منه، ثم قالت: والله ما لي بالطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على المنبر:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وقالت زينب: سمعت ام سلمة، تقول: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد اشتكت عينها، افاكحلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا، ثم قال:" إنما هي اربعة اشهر وعشرا، وقد كانت إحداكن في الجاهلية ترمي بالبعرة عند راس الحول"، قال حميد: فقلت لزينب: وما ترمي بالبعرة عند راس الحول؟ قالت زينب: كانت المراة إذا توفي عنها زوجها دخلت حفشا، ولبست شر ثيابها، ولم تمس طيبا ولا شيئا حتى تمر بها سنة، ثم تؤتى بدابة حمار او شاة او طير فتفتض به، فقلما تفتض بشيء إلا مات، ثم تخرج، فتعطى بعرة فترمي بها، وتراجع بعد ما شاءت من طيب او غيره، قال مالك: تفتض تمسح به في حديث محمد، قال مالك: الحفش الخص. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَتْ زَيْنَبُ: ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، وَقَدْ دَعَتْ بِطِيبٍ وَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ:" لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَقَالَتْ زَيْنَبُ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا، أَفَأَكْحُلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ"، قَالَ حُمَيْدٌ: فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ: وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ؟ قَالَتْ زَيْنَبُ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلَا شَيْئًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَيْرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ، فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي بِهَا، وَتُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ، قَالَ مَالِكٌ: تَفْتَضُّ تَمْسَحُ بِهِ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدٍ، قَالَ مَالِكٌ: الْحِفْشُ الْخُصُّ.
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے انہوں نے یہ (آنے والی) تین حدیثیں بیان کیں: ۱- زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہو گیا تو میں ان کے پاس (تعزیت میں) گئی، (میں نے دیکھا کہ) انہوں نے خوشبو منگوائی، (پہلے) لونڈی کو لگائی پھر اپنے دونوں گالوں پر ملا پھر یہ بھی بتا دیا کہ قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت اور خواہش نہ تھی مگر (میں نے یہ بتانے کے لیے لگائی ہے کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے انتقال کرنے پر، کہ اس پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی“۔ (اس لیے میں اپنے والد کے مر جانے پر تین دن کے بعد سوگ نہیں منا رہی ہوں)۔ ۲- زینب (زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں: جب ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہو گیا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے خود لگایا پھر (مسئلہ بتانے کے لیے) کہا: قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت نہ تھی مگر یہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے (و اعلان کرتے) ہوئے سنا ہے: ”جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی کے مرنے پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، شوہر کے مرنے پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی“۔ ۳- زینب (زینب بنت ابی سلمہ) کہتی ہیں: میں نے (ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر انتقال کر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ نے فرمایا: ”ارے یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (جاہلیت میں کیا ہوتا تھا وہ بھی دھیان میں رہے) زمانہ جاہلیت میں تمہاری (بیوہ) عورت (سوگ کا) سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی“۔ حمید بن نافع کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا سے کہا: سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکنے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا عورت کا شوہر جب انتقال کر جاتا تھا تو اس کی بیوی تنگ و تاریک جگہ (چھوٹی کوٹھری) میں جا رہتی اور خراب سے خراب کپڑا پہن لیتی تھی اور سال پورا ہونے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتی۔ (سال پورا ہو جانے کے بعد) پھر کوئی جانور گدھا، بکری یا چڑیا اس کے پاس لائی جاتی اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرمگاہ کو رگڑتی اور جس جانور سے بھی وہ رگڑتی (دبوچتی) وہ (مر کر ہی چھٹی پاتا) مر جاتا، پھر وہ اس تنگ تاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی (اس طرح وہ گویا اپنی نحوست دور کرتی)، اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ جو چاہے استعمال کی اجازت ملتی۔ مالک کہتے ہیں: «تفتض» کا مطلب «تمسح به» کے ہیں (یعنی اس سے رگڑتی)۔ محمد بن سلمہ مالک کہتے ہیں: «حفش»، «خص» کو کہتے ہیں (یعنی بانس یا لکڑی کا جھونپڑا)۔