Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
55. بَابُ : عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
باب: بیوہ کی عدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3532
أَخْبَرَنِي إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَجَدُّهُ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتَا: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَإِنِّي أَخَافُ عَلَى عَيْنِهَا، أَفَأَكْحُلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَجْلِسُ حَوْلًا، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، فَإِذَا كَانَ الْحَوْلُ خَرَجَتْ، وَرَمَتْ وَرَاءَهَا بِبَعْرَةٍ".
ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میری بیٹی کے شوہر (یعنی میرے داماد) کا انتقال ہو گیا ہے اور مجھے (عدت میں بیٹھی) بیٹی کی آنکھ کے خراب ہو جانے کا خوف ہے تو میں اس کی آنکھ میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں (سوگ منانے والی) عورت زمانہ جاہلیت میں سال بھر بیٹھی رہتی تھی، اور یہ تو چار مہینہ دس دن کی بات ہے، جب سال پورا ہو جاتا تو وہ باہر نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3532 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3532  
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے سابقہ حدیث۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3532   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2084  
´بیوہ عورت عدت کے دنوں میں زیب و زینت نہ کرے۔`
ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہما ذکر کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کی بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی بیٹی کی آنکھ دکھ رہی ہے وہ سرمہ لگانا چاہتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے (زمانہ جاہلیت میں) تم سال پورا ہونے پر اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی اور اب تو عدت صرف چار ماہ دس دن ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2084]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  وفات کی عدت کے دوران میں زیور وغیرہ پہننے اور زینت کی اشیاء کے استعمال سے اجتناب ضروری ہے۔
لباس بھی سادہ پہننا چاہیے۔

(2)
عدت كے دوران میں علاج کے طور پر بھی ایسی چیز کا استعمال جائز نہیں جو زینت کے لیے استعمال ہوتی ہو، مثلاً:
آنکھوں میں سرمہ لگانا، یا ہاتھوں پر مہندی لگانا،   اس دوران علاج کے لیے دوسری اشیاء استعمال کریں۔

(3)
وفات کی عدت چار ماہ دس دن ہے، البتہ اگر امید سے ہو تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے، خواہ پیدائش چار ماہ دس دن کی مدت گزرنے پہلے ہو جائے یا مدت کے بعد ہو۔ (سنن ابن ماجة، حدیث2027، 2030)

(4)
اسلام کے احکام غیر اسلامی رسم و رواج سے بہتر بھی ہیں اور آسان بھی، اس لیے ان میں اگر کوئی مشکل محسوس ہو تو اسے برداشت کرتے ہوئے شرعی احکام ہی پر عمل کرنا چاہئے۔

(5)
مینگنی پھینکنے سے جاہلیت کے دور طرف اشارہ ہے۔
اس زمانے میں جب کسی عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تھا تو وہ جھونپڑی میں رہائش پذیر ہو جاتی، پرانے کپڑے پہن لیتی، کوئی خوشبو وغیرہ استعمال نہ کرتی۔
پورا سال اسی طرح گزارنے کے بعد جب وہ باہر آتی تو اونٹ کی ایک مینگنی لے کر پھینک دیتی۔
یہ گویا اس بات کا اظہار ہوتا کہ فوت شدہ خاوند کی محبت میں ایک سال کا سوگ میرے لیے ایسے ہی معمولی ہے، جیسے ایک مینگنی اٹھا کر پھینک دینا۔
اسلام نے رسم بد کا خاتمہ کر دیا۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب تحد المتوفي عنها أربعة أشہر وعشرا)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2084   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1282  
1282. حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے کہا کہ پھر میں (ام المومنین) حضرت زینب بنت جحش ؓ کے پاس گئی جبکہ ان کا بھائی فوت ہو گیا تھا تو انھوں نے خوشبو منگوا کر اپنے بدن پر لگائی، پھر فرمایا: مجھے خوشبو کی ضرورت نہ تھی مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے: کسی بھی عورت کے لیے، جو اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتی ہو، جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے لیکن اسے اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1282]
حدیث حاشیہ:
(1)
سوگ سے متعلقہ دیگر احکام و مسائل کتاب الطلاق میں بیان ہوں گے، لیکن اس مقام پر یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اگر خاوند کی وفات کے وقت بیوی حاملہ تھی تو اس کے سوگ کی مدت وضع حمل ہے، خواہ چار ماہ دس دن سے پہلے وضع ہو یا اس کے بعد۔
اس روایت میں حضرت ابو سفیان ؓ کے متعلق ملک شام سے وفات کی خبر آنا وہم پر مبنی ہے، کیونکہ ان کا انتقال بالاتفاق مدینہ منورہ میں ہوا تھا۔
شام میں انتقال کرنے والے حضرت ام حبیبہ ؓ کے برادر عزیز حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ تھے، جیسا کہ سنن دارمی اور مسند احمد وغیرہ میں یہ وضاحت موجود ہے۔
(فتح الباري: 188/3) (2)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صرف بیوی اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ کر سکتی ہے، اس کے علاوہ کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔
بیوی کے خاوند پر اتنا سوگ کرنے کی صورت میں بھی متعدد اسلامی مصلحتیں پیش نظر ہیں جنہیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔
(3)
حضرت زینب بنت حجش ؓ کے تین بھائی تھے:
عبداللہ، عبیداللہ اور ابو احمد۔
حضرت عبداللہ غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے تھے، اس وقت حضرت زینب رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں نہیں آئی تھیں۔
عبیداللہ نصرانی تھا وہ حبشہ میں عیسائیت پر مرا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی وفات کے بعد حضرت زینب سے نکاح کیا تھا، کیونکہ عبیداللہ کی وفات کے وقت حضرت زینب بہت چھوٹی تھیں۔
ابو احمد کی زندگی میں حضرت زینب ؓ نے وفات پائی۔
تو اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت زینب نے کس بھائی کی وفات پر سوگ کیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ام المومنین حضرت زینب بنت حجش ؓ کا ایک اخیافی یا رضاعی بھائی تھا اس کی وفات پر انہوں نے سوگ کیا تھا۔
(فتح الباري: 189/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1282