(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: حدثنا إسماعيل بن مسلم، قال: حدثنا محمد بن واسع، عن مطرف بن عبد الله، قال: قال لي عمران بن حصين:" تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم"، قال ابو عبد الرحمن: إسماعيل بن مسلم ثلاثة هذا احدهم لا باس به , وإسماعيل بن مسلم شيخ يروي عن ابي الطفيل لا باس به , وإسماعيل بن مسلم يروي عن الزهري، والحسن متروك الحديث. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ:" تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: إِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ ثَلَاثَةٌ هَذَا أَحَدُهُمْ لَا بَأْسَ بِهِ , وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ شَيْخٌ يَرْوِي عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ لَا بَأْسَ بِهِ , وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ يَرْوِي عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَالْحَسَنُ مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ.
مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج) تمتع کیا، ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ اسماعیل بن مسلم نام کے تین لوگ ہیں، یہ اسماعیل بن مسلم (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) انہیں تینوں میں سے ایک ہیں، ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور (دوسرے) اسماعیل بن مسلم ایک شیخ ہیں جو ابوالطفیل سے روایت کرتے ہیں ان سے بھی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور تیسرے اسماعیل بن مسلم ہیں جو زہری اور حسن سے روایت کرتے ہیں یہ متروک الحدیث ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام کے لیے خوشبو لگائی جس وقت آپ نے احرام باندھا، اور آپ کے احرام کھولنے کے لیے خوشبو لگائی اس کے بعد کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، اور اس سے پہلے کہ آپ بیت اللہ کا طواف کریں۔
(مرفوع) اخبرني عمران بن يزيد، قال: حدثنا عيسى وهو ابن يونس , قال: حدثنا الاعمش، عن مسلم البطين، عن علي بن حسين، عن مروان بن الحكم، قال: كنت جالسا عند عثمان , فسمع عليا يلبي بعمرة وحجة، فقال الم تكن تنهى عن هذا؟ قال:" بلى، ولكني، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا، فلم ادع قول رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُثْمَانَ , فَسَمِعَ عَلِيًّا يُلَبِّي بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، فَقَالَ أَلَمْ تَكُنْ تُنْهَى عَنْ هَذَا؟ قَالَ:" بَلَى، وَلَكِنِّي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي بِهِمَا جَمِيعًا، فَلَمْ أَدَعْ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِكَ".
مروان بن حکم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں عثمان کے پاس بیٹھا تھا کہ انہوں نے علی کو عمرہ و حج دونوں کا تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا: کیا ہم اس سے روکے نہیں جاتے تھے۔ انہوں نے کہا: کیونکہ نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں (حج و عمرہ) کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ہے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو آپ کے قول کے لیے نہیں چھوڑ سکتا۔
مطرف کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج و عمرہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا پھر اس سے پہلے کہ آپ اس سے منع فرماتے یا اس کے حرام ہونے کے سلسلے میں آپ پر کوئی آیت اترتی آپ کی وفات ہو گئی۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن مطرف، عن عمران، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" جمع بين حج وعمرة، ثم لم ينزل فيها كتاب، ولم ينه عنهما النبي صلى الله عليه وسلم"، قال: فيهما رجل برايه ما شاء. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" جَمَعَ بَيْنَ حَجٍّ وَعُمْرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ فِيهَا كِتَابٌ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ: فِيهِمَا رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
عمران رضی الله عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا پھر اس سلسلے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی ان دونوں کو جمع کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، لیکن ایک شخص نے ان دونوں کے بارے میں اپنی رائے سے جو چاہا کہا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اشارہ عمر رضی الله عنہ کی طرف سے، کیونکہ وہ حج و عمرہ دونوں کو جمع کرنے سے روکتے تھے، جیسے عثمان رضی الله عنہ روکتے تھے جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح ۲/۸۹۸ میں اس کی تصریح کی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا هشيم، قال: حدثنا حميد الطويل، قال: انبانا بكر بن عبد الله المزني، قال: سمعت انسا يحدث، قال:" سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يلبي بالعمرة والحج جميعا"، فحدثت بذلك ابن عمر، فقال:" لبى بالحج وحده" , فلقيت انسا فحدثته بقول ابن عمر، فقال انس: ما تعدونا إلا صبيانا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لبيك عمرة وحجا معا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ، قَالَ:" سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي بِالْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ جَمِيعًا"، فَحَدَّثْتُ بِذَلِكَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ:" لَبَّى بِالْحَجِّ وَحْدَهُ" , فَلَقِيتُ أَنَسًا فَحَدَّثْتُهُ بِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ أَنَسٌ: مَا تَعُدُّونَا إِلَّا صِبْيَانًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا مَعًا".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ہے تو میں نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا تلبیہ پکارا تھا، پھر میری ملاقات انس سے ہوئی تو میں نے ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بات بیان کی، اس پر انس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگ ہمیں بچہ ہی سمجھتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ساتھ «لبيك عمرة وحجا» کہتے ہوئے سنا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن محمد بن عبد الله ابن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب انه حدثه , انه سمع سعد بن ابي وقاص , والضحاك بن قيس عام حج معاوية بن ابي سفيان وهما يذكران التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال الضحاك: لا يصنع ذلك إلا من جهل امر الله تعالى، فقال سعد:" بئسما قلت يا ابن اخي، قال الضحاك:" فإن عمر بن الخطاب نهى عن ذلك" , قال سعد:" قد صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وصنعناها معه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ , أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ , وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ عَامَ حَجَّ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَهُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ الضَّحَّاكُ: لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ تَعَالَى، فَقَالَ سَعْدٌ:" بِئْسَمَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ الضَّحَّاكُ:" فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ نَهَى عَنْ ذَلِكَ" , قَالَ سَعْدٌ:" قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ".
محمد بن عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہما کو جس سال معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے حج کیا تمتع کا یعنی عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حج کرنے کا ذکر کرتے سنا، ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے وہی کرے گا، جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو گا، اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھتیجے! بری بات ہے، جو تم نے کہی، تو ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تو اس سے روکا ہے اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم لوگوں نے بھی کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار واللفظ له، قالا: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن عمارة بن عمير، عن إبراهيم بن ابي موسى، عن ابي موسى، انه كان يفتي بالمتعة، فقال له رجل: رويدك ببعض فتياك فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعد، حتى لقيته فسالته، فقال عمر: قد علمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد فعله، ولكن كرهت ان يظلوا معرسين بهن في الاراك، ثم يروحوا بالحج تقطر رءوسهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ، حَتَّى لَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ، وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعَرِّسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُوا بِالْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتاوے کو ملتوی رکھیں ۱؎ آپ کو امیر المؤمنین (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) نے اس کے بعد حج کے سلسلے میں جو نیا حکم جاری کیا ہے وہ معلوم نہیں، یہاں تک کہ میں ان سے ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے، لیکن میں یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ لوگ «اراک» میں اپنی بیویوں سے ہمبستر ہوں، پھر وہ صبح ہی حج کے لیے اس حال میں نکلیں کہ ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔
(مرفوع) اخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، عن هشام بن حجير، عن طاوس، قال: قال معاوية لابن عباس:" اعلمت اني قصرت من راس رسول الله صلى الله عليه وسلم عند المروة؟" قال: لا. يقول ابن عباس:" هذا معاوية، ينهى الناس عن المتعة وقد تمتع النبي صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ لِابْنِ عَبَّاسٍ:" أَعَلِمْتَ أَنِّي قَصَّرْتُ مِنْ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْمَرْوَةِ؟" قَالَ: لَا. يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ:" هَذَا مُعَاوِيَةُ، يَنْهَى النَّاسَ عَنِ الْمُتْعَةِ وَقَدْ تَمَتَّعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
طاؤس کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ مروہ کے پاس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کترے تھے (میں یہ اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ) ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ معاویہ ہیں جو لوگوں کو تمتع سے روکتے ہیں حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کیا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہاں روایت میں ایک اشکال ہے اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متمتع تھے حالانکہ صحیح یہ ہے کہ آپ قارن تھے، آپ نے اپنے بال میں سے کوئی چیز نہیں کتروائی اور نہ کوئی چیز اپنے لیے حلال کی یہاں تک کہ یوم النحر کو منیٰ میں آپ نے حلق کرائی اس لیے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ شاید حج سے معاویہ کی مراد عمرہ جعرانہ ہو کیونکہ اسی موقع پروہ اسلام لائے تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول ابن عباس هذا معاوية
مطرف کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج) تمتع کیا، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ (حج) تمتع کیا (لیکن) کہنے والے نے اس سلسلے میں اپنی رائے سے کہا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2729 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: لہٰذا صریح سنت کے مقابلہ میں قائل کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن علية، عن ابن جريج، قال: اخبرني عطاء، عن جابر، قال: اهللنا اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالحج خالصا ليس معه غيره خالصا وحده فقدمنا مكة صبيحة رابعة مضت من ذي الحجة، فامرنا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" احلوا واجعلوها عمرة"، فبلغه عنا انا نقول: لما لم يكن بيننا وبين عرفة إلا خمس، امرنا ان نحل، فنروح إلى منى ومذاكيرنا تقطر من المني، فقام النبي صلى الله عليه وسلم، فخطبنا، فقال:" فقد بلغني الذي قلتم وإني لابركم واتقاكم ولولا الهدي لحللت، ولو استقبلت من امري ما استدبرت ما اهديت". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقدم علي من اليمن، فقال:" بما اهللت؟" قال بما اهل به النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" فاهد وامكث حراما كما انت". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقال سراقة بن مالك بن جعشم: يا رسول الله ارايت عمرتنا هذه لعامنا هذا او للابد؟ قال:" هي للابد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُهُ خَالِصًا وَحْدَهُ فَقَدِمْنَا مَكَّةَ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَحِلُّوا وَاجْعَلُوهَا عُمْرَةً"، فَبَلَغَهُ عَنَّا أَنَّا نَقُولُ: لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، فَنَرُوحَ إِلَى مِنًى وَمَذَاكِيرُنَا تَقْطُرُ مِنَ الْمَنِيِّ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَنَا، فَقَالَ:" فَقَدْ بَلَغَنِي الَّذِي قُلْتُمْ وَإِنِّي لَأَبَرُّكُمْ وَأَتْقَاكُمْ وَلَوْلَا الْهَدْيُ لَحَلَلْتُ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ، فَقَالَ:" بِمَا أَهْلَلْتَ؟" قَالَ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا كَمَا أَنْتَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ عُمْرَتَنَا هَذِهِ لِعَامِنَا هَذَا أَوْ لِلْأَبَدِ؟ قَالَ:" هِيَ لِلْأَبَدِ".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ۴ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ”احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو“، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے احرام کھول کر حلال ہو جائیں تو ہم منیٰ کو جائیں گے، اور ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو گی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ”جو بات تم لوگوں نے کہی ہے وہ مجھے معلوم ہو چکی ہے، میں تم سے زیادہ نیک اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں، اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی حلال ہو گیا ہوتا، اگر جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے پہلے معلوم ہو گئی ہوتی تو میں ہدی ساتھ لے کر نہ آتا“۔ (اسی دوران) علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے، تو آپ نے ان سے پوچھا: ”تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے؟“ انہوں نے کہا: جس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا ہے، آپ نے فرمایا: ”تم ہدی دو اور احرام باندھے رہو، جس طرح تم ہو“۔ اور سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں بتائیے ہمارا یہ عمرہ اسی سال کے لیے ہے، یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ نے فرمایا: ”ہمیشہ کے لیے ہے“۔
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں بتائیے کیا ہمارا یہ عمرہ ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہمیشہ کے لیے ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحج40 (2977)، (تحفة الأشراف: 3815)، مسند احمد (4/175) (صحیح)»
سراقہ بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ہم سب نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا۔ تو ہم نے عرض کیا: کیا یہ ہمارے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یہاں اصطلاحی تمتع مراد نہیں لغوی تمتع مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ عمرہ اور حج دونوں کا آپ نے فائدہ اٹھایا کیونکہ صحیح روایتوں سے آپ کا قارن ہونا ثابت ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" هذه عمرة استمتعناها، فمن لم يكن عنده هدي، فليحل الحل كله، فقد دخلت العمرة في الحج". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَذِهِ عُمْرَةٌ اسْتَمْتَعْنَاهَا، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ هَدْيٌ، فَلْيَحِلَّ الْحِلَّ كُلَّهُ، فَقَدْ دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے، تو جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پورے طور پر حلال ہو جائے، کیونکہ عمرہ حج میں شامل ہو گیا ہے“۔