ابورزین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بوڑھے ہیں، نہ حج کر سکتے ہیں نہ عمرہ اور نہ سفر؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے والد کی طرف سے تم حج و عمرہ کر لو“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد , قال: حدثنا شعبة، عن ابي بشر، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث، عن ابن عباس، ان امراة نذرت ان تحج فماتت، فاتى اخوها النبي صلى الله عليه وسلم فساله عن ذلك؟ فقال:" ارايت لو كان على اختك دين اكنت قاضيه؟" قال: نعم، قال:" فاقضوا الله، فهو احق بالوفاء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَة، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ، فَأَتَى أَخُوهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُخْتِكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَاقْضُوا اللَّهَ، فَهُوَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی، پھر (حج کئے بغیر) مر گئی، اس کا بھائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپ فرمایا: ”بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتے؟“ اس نے کہا: ہاں میں ادا کرتا، آپ نے فرمایا: ”تو اللہ کا قرض ادا کرو وہ تو اور بھی ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا عمران بن موسى، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا ابو التياح قال: حدثني موسى بن سلمة الهذلي، ان ابن عباس قال: امرت امراة سنان بن سلمة الجهني ان يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم , ان امها ماتت ولم تحج افيجزئ عن امها ان تحج عنها، قال:" نعم لو كان على امها دين فقضته عنها الم يكن يجزئ عنها؟ فلتحج عن امها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَال: حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ سَلَمَةَ الْهُذَلِيُّ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: أَمَرَتِ امْرَأَةٌ سِنَانَ بْنَ سَلَمَةَ الْجُهَنِيَّ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ أُمَّهَا مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَيُجْزِئُ عَنْ أُمِّهَا أَنْ تَحُجَّ عَنْهَا، قَالَ:" نَعَمْ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّهَا دَيْنٌ فَقَضَتْهُ عَنْهَا أَلَمْ يَكُنْ يُجْزِئُ عَنْهَا؟ فَلْتَحُجَّ عَنْ أُمِّهَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے سنان بن سلمہ جہنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں کہ میری ماں مر گئی ہے اور اس نے حج نہیں کیا ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں تو اسے کافی ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اگر اس کی ماں پر قرض ہوتا اور وہ اس کی جانب سے ادا کرتی تو کیا یہ اس کی طرف سے کافی نہ ہو جاتا؟ لہٰذا اسے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنا چاہیئے“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والد کے بارے میں جو مر گئے تھے اور حج نہیں کیا تھا پوچھا: آپ نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج کر لو“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، ان امراة من خثعم سالت النبي صلى الله عليه وسلم غداة جمع، فقالت: يا رسول الله , فريضة الله في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستمسك على الرحل افاحج عنه، قال:" نعم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ جَمْع، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَمْسِكُ عَلَى الرَّحْلِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ، قَالَ:" نَعَمْ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے مزدلفہ (یعنی دسویں ذی الحجہ) کی صبح کی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! حج کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے اس نے میرے والد کو اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہیں، سواری پر ٹک نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (کر لو)“۔
ابورزین عقیلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، نہ وہ حج و عمرہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اور نہ ہی سواری پر چڑھ سکتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج و عمرہ کر لو“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن يوسف بن الزبير، عن عبد الله بن الزبير، قال: جاء رجل من خثعم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابي شيخ كبير لا يستطيع الركوب وادركته فريضة الله في الحج فهل يجزئ ان احج عنه؟ قال آنت اكبر ولده؟ قال: نعم، قال:" ارايت لو كان عليه دين اكنت تقضيه؟" قال: نعم، قال:" فحج عنه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ خَثْعَمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الرُّكُوبَ وَأَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ فَهَلْ يُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ آنْتَ أَكْبَرُ وَلَدِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ أَكُنْتَ تَقْضِيه؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَحُجَّ عَنْهُ".
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ سواری پر چڑھ نہیں سکتے، اور حج کا فریضہ ان پر عائد ہو چکا ہے، میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ان کے بڑے بیٹے ہو؟“ اس نے کہا: جی ہاں (میں ان کا بڑا بیٹا ہوں) آپ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے؟“ اس نے کہا: ہاں (میں ادا کرتا) آپ نے فرمایا: ”تو تم ان کی طرف سے حج ادا کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5292)، مسند احمد 4/5، سنن الدارمی/المناسک24 (1878) ویأتي عند المؤلف برقم: 2645) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ”یوسف“ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، يوسف بن الزبير: مجهول الحال (التحرير: 7863) لم يوثقه غير ابن حبان. وأصل الحديث صحيح،انظرالحديث السابق (الأصل: 2638) والحديث الآتي (الأصل: 2640) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 342
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے والد انتقال کر گئے اور انہوں نے حج نہیں کیا، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”کیا خیال ہے اگر تمہارے والد پر کچھ قرض ہوتا تو تم ادا کرتے؟“ اس نے کہا: ہاں (میں ادا کرتا) تو آپ نے فرمایا: ”تو اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کئے جانے کا زیادہ مستحق ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6041) (ضعیف الإسناد شاذ) (اس کے راوی ’’محکم‘‘ کو وہم ہو جایا کرتا تھا، اسی لیے انہوں نے پوچھنے والے کو مرد اور جس کے بارے میں پوچھا گیا اس کو عورت بنا دیا ہے)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی روایت میں صحیح بات یہ ہے کہ مسئلہ پوچھنے والی عورت تھی، اور اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تھا جو زندہ مگر کمزور تھا، اور اس واقعہ کے وقت یا تو دونوں بھائی (عبداللہ اور فضل) موجود تھے یا فضل نے یہ واقعہ عبداللہ بن عباس سے بیان کیا، روایت کی صحت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت کے سوا دیگر صحابہ کی روایتوں میں دیگر واقعات بھی اسی طرح کے سوال و جواب کے ممکن ہیں، پوچھنے والے مرد و عورت بھی ہو سکتے ہیں، اور جن کے بارے میں پوچھا گیا وہ بھی مرد و عورت ہو سکتے ہیں، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں، جس کو بنیاد بنا کر حدیث کی حجیت کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں۔
(مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، عن هشيم، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم ان ابي ادركه الحج وهو شيخ كبير لا يثبت على راحلته فإن شددته خشيت ان يموت، افاحج عنه؟ قال:" ارايت لو كان عليه دين فقضيته، اكان مجزئا؟" قال: نعم، قال:" فحج عن ابيك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَبِي أَدْرَكَهُ الْحَجُّ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَثْبُتُ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَإِنْ شَدَدْتُهُ خَشِيتُ أَنْ يَمُوتَ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ، أَكَانَ مُجْزِئًا؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے باپ کو (فریضہ) حج نے اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اپنی سواری پر ٹک نہیں سکتے، اگر میں انہیں سواری پر بٹھا کر باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں مر نہ جائیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتے، تو وہ کافی ہو جاتا“؟ اس نے کہا: ہاں (کافی ہو جاتا) آپ نے فرمایا: ”پھر اپنے باپ کی طرف سے حج کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلنسائي، (تحفة الأشراف: 5657)، انظر حدیث رقم: 2635 (شاذ أومنکر) (اس کے راوی ’’ہشیم“ کثیر التدلیس ہیں، سائل کا عورت ہونا ہی محفوظ بات ہے)»
قال الشيخ الألباني: شاذ أو منكر بذكر الرجل والمحفوظ أن السائل امرأة
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءته امراة من خثعم تستفتيه وجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر، فقالت: يا رسول الله إن فريضة الله في الحج على عباده ادركت" ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يثبت على الراحلة، افاحج عنه؟ قال: نعم" وذلك في حجة الوداع. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ وَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ" أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ" وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھے، تو قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے آئی، تو فضل اسے دیکھنے لگے، اور وہ فضل کو دیکھنے لگی، اور آپ فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، تو اس عورت نے پوچھا: اللہ کے رسول! اپنے بندوں پر اللہ کے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے باپ کو اس حال میں پایا: انتہائی بوڑھے ہو چکے ہیں، سواری پر ٹک نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں کر لو“، یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يزيد وهو ابن هارون، قال: انبانا هشام، عن محمد، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن الفضل بن عباس، انه كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم فجاءه رجل فقال: يا رسول الله إن امي عجوز كبيرة، وإن حملتها لم تستمسك، وإن ربطتها خشيت ان اقتلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو كان على امك دين اكنت قاضيه؟" قال: نعم , قال:" فحج عن امك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي عَجُوزٌ كَبِيرَةٌ، وَإِنْ حَمَلْتُهَا لَمْ تَسْتَمْسِكْ، وَإِنْ رَبَطْتُهَا خَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟" قَالَ: نَعَمْ , قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أُمِّكَ".
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے تو آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں بہت بوڑھی ہو چکی ہیں، اگر میں انہیں سواری پر چڑھا دوں تو وہ بیٹھی نہیں رہ سکتیں، اور اگر میں انہیں (سواری پر بٹھا کر) باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی جان نہ لے بیٹھوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا خیال ہے اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے؟“ اس نے کہا: جی ہاں (میں ادا کرتا) آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنی ماں کی جانب سے حج کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11044)، مسند احمد (1/212)، ویأعند المؤلف برقم: 5396، 5397 (شاذ) (سائل کا عورت ہونا ہی محفوظ بات ہے)»
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”تم اپنے باپ کا بڑے بیٹے ہو تو تم ان کی طرف سے حج کرو“۔
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی انتقال کر گئی تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نذر کو تم ان کی طرف سے پوری کر دو“۔
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جوان کی ماں کے ذمہ تھی اور نذر پوری کرنے سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی تھی؟ آپ نے فرمایا: ”تم ان کی طرف سے نذر پوری کر دو“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے متعلق پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، تو آپ نے فرمایا: ”تم ان کی طرف سے نذر پوری کر دو“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور جسے پوری کرنے سے پہلے ہی وہ مر گئیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اسے تم ان کی طرف سے پوری کر دو“۔
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ماں مر گئیں اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے ان کی طرف سے پوری کر دوں۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا الليث، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: استفتى سعد بن عبادة الانصاري رسول الله صلى الله عليه وسلم في نذر كان على امه فتوفيت قبل ان تقضيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقضه عنها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: اسْتَفْتَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْضِهِ عَنْهَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر سے متعلق جو ان کی ماں کے ذمہ تھی مسئلہ پوچھا اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ انتقال کر گئیں تھیں، تو آپ نے ان سے فرمایا: ”اسے ان کی طرف سے تم پوری کر دو“۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میری ماں انتقال کر گئی ہیں اور ان کے ذمہ ایک نذر ہے اور وہ اسے پوری نہیں کر سکی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسے ان کی طرف سے پوری کر دو“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو چکا تھا تو آپ نے فرمایا: ”ان کی طرف سے تم اسے پوری کرو“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة , قال: حدثنا الليث , عن ابن شهاب , عن عبيد الله بن عبد الله , عن ابن عباس , قال: استفتى سعد بن عبادة رسول الله صلى الله عليه وسلم في نذر كان على امه , فتوفيت قبل ان تقضيه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقضه عنها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: اسْتَفْتَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ , فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْضِهِ عَنْهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمے تھی اور وہ اسے پوری کرنے سے پہلے ہی انتقال کر گئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے ان کی طرف سے تم پوری کرو“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میری ماں مر گئیں، ان کے ذمے ایک نذر تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے ان کی جانب سے تم پوری کر دو“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن هاشم، عن الوليد، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، عن الفضل بن عباس، انه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة النحر، فاتته امراة من خثعم , فقالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يركب إلا معترضا افاحج عنه؟ قال:" نعم , حجي عنه، فإنه لو كان عليه دين قضيتيه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ الْوَلِيدِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ النَّحْرِ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَرْكَبَ إِلَّا مُعْتَرِضًا أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ , حُجِّي عَنْهُ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَضَيْتِيهِ".
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر کافی بڑھاپے میں واجب ہوا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ انہیں باندھ دیا جائے، تو کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ان کی طرف سے حج کر لو۔ اس لیے کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو وہ بھی تم ہی ادا کرتیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: گویا اس مثال کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر اس کے معذور باپ کے اوپر فرض حج کی ادائیگی کا فیصلہ دیا، اسی طرح دنیا کی ہر عدالت میں «اشباہ و نظائر» کے سہارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان، قال: حدثنا الوليد، عن الاوزاعي، قال: اخبرني ابن شهاب. ح، واخبرني محمود بن خالد، قال: حدثنا عمر، عن الاوزاعي، حدثني الزهري، عن سليمان بن يسار، ان ابن عباس اخبره، ان امراة من خثعم استفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم , والفضل رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يستوي على الراحلة فهل يجزئ؟ قال محمود: فهل يقضي ان احج عنه؟ فقال لها:" نعم". قال ابو عبد الرحمن: وقد روى هذا الحديث غير واحد , عن الزهري فلم يذكر فيه ما ذكر الوليد بن مسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ. ح، وَأَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالْفَضْلُ رَدِيفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ يُجْزِئُ؟ قَالَ مَحْمُودٌ: فَهَلْ يَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ فَقَالَ لَهَا:" نَعَمْ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ فَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ مَا ذَكَرَ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا (فضل اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔) وہ بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بن دوں پر عائد کردہ فرض فریضۂ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا ہے جب وہ کافی بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو ان کی طرف سے میرا حج کرنا کافی ہے؟ (محمود نے ( «فهل يجزي» یعنی کافی ہے؟ کے بجائے) «فهل يقضي»(یعنی کیا ادا ہو جائے گا) کہا۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”ہاں“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اس حدیث کو زہری سے ایک سے زائد لوگوں نے روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر ولید نے کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر رقم: 2635 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ولید نے اس حدیث کو مسند فضل سے روایت کیا ہے جب کہ زہری سے روایت کرنے والے دوسرے شاگردوں نے اسے مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
(مرفوع) قال الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع: عن ابن القاسم، حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاءته امراة من خثعم تستفتيه، فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر، فقالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل على عباده في الحج ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يثبت على الراحلة , افاحج عنه؟ قال:" نعم" , وذلك في حجة الوداع. (مرفوع) قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ , أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" , وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ سے مسئلہ پوچھنے آئی، فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے وہ ان کی طرف دیکھنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا رخ دوسری طرف موڑ دیتے، وہ بولی: اللہ کے رسول! اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جب وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر سیدھے بیٹھ بھی نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، اور یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، ان سليمان بن يسار اخبره، ان ابن عباس اخبره، ان امراة من خثعم قالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستوي على الراحلة , فهل يقضي عنه ان احج عنه؟ قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم" , فاخذ الفضل يلتفت إليها , وكانت امراة حسناء، واخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الفضل فحول وجهه من الشق الآخر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَوِي عَلَى الرَّاحِلَةِ , فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ" , فَأَخَذَ الْفَضْلُ يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا , وَكَانَتِ امْرَأَةً حَسْنَاءَ، وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضْلَ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جبکہ وہ کافی بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”ہاں“، فضل اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگے، وہ ایک حسین و جمیل عورت تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو پکڑا اور ان کا رخ دوسری جانب گھما دیا۔
(مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، عن هشيم، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس: ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم: إن ابي ادركه الحج وهو شيخ كبير لا يثبت على راحلته , فإن شددته خشيت ان يموت , افاحج عنه؟ قال:" افرايت لو كان عليه دين فقضيته اكان مجزئا؟" قال: نعم، قال:" فحج عن ابيك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبِي أَدْرَكَهُ الْحَجُّ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَثْبُتُ عَلَى رَاحِلَتِهِ , فَإِنْ شَدَدْتُهُ خَشِيتُ أَنْ يَمُوتَ , أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" أَفَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ أَكَانَ مُجْزِئًا؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے والد پر حج فرض ہو گیا ہے، اور وہ اس قدر بوڑھے ہو گئے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ اس سے مر نہ جائیں، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ نے فرمایا: اگر ان پر کچھ قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کیا وہ کافی ہوتا؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنے باپ کی طرف سے حج کر لو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2635 (شاذ) (اس واقعہ میں سائل کا مرد ہونا شاذ ہے)»
قال الشيخ الألباني: شاذ مضطرب والمحفوظ أن السائل امرأة والمسؤول عنه أبوها
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا هشام، عن محمد، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن الفضل بن العباس انه كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم , فجاءه رجل , فقال: يا رسول الله , إن امي عجوز كبيرة، إن حملتها لم تستمسك، وإن ربطتها خشيت ان اقتلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو كان على امك دين اكنت قاضيه" قال: نعم، قال:" فحج عن امك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أُمِّي عَجُوزٌ كَبِيرَةٌ، إِنْ حَمَلْتُهَا لَمْ تَسْتَمْسِكْ، وَإِنْ رَبَطْتُهَا خَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أُمِّكَ".
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں ایک شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری ماں بہت بڑی بوڑھی عورت ہیں، اگر میں انہیں سوار کر دوں تو وہ اسے پکڑ نہیں سکیں گی اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ میرے اس عمل سے مر نہ جائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے یا نہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم اپنی ماں کی طرف سے حج کرو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2644 (شاذ)»
قال الشيخ الألباني: شاذ والمحفوظ خلافة كما ذكرت في الذي قبله
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا الوليد بن نافع، قال: حدثنا شعبة، عن يحيى بن ابي إسحاق، قال: سمعت سليمان بن يسار يحدثه، عن الفضل بن العباس، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: يا نبي الله , إن ابي شيخ كبير لا يستطيع الحج وإن حملته لم يستمسك , افاحج عنه؟ قال:" حج عن ابيك". قال ابو عبد الرحمن: سليمان لم يسمع من الفضل بن العباس. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ يُحَدِّثُهُ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَإِنْ حَمَلْتُهُ لَمْ يَسْتَمْسِكْ , أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" حُجَّ عَنْ أَبِيكَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سُلَيْمَانُ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ.
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے نبی! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، حج نہیں کر سکتے، اگر میں انہیں سوار کر دوں، تو اسے پکڑ کر بیٹھ نہیں سکیں گے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: سلیمان کا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد کافی بوڑھے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کافی ہوتا یا نہیں؟“۔